اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

اس بت کا انتظار کبھی ہے کبھی نہیں
دل اپنا بے قرار کبھی ہے کبھی نہیں

اقرار بھی ہے وعدے سے انکار بھی اسے
ظالم کا اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں

نفرت ہے ویسے گر تجھے انکار ہی سہی
یہ کیا کہ خواست گار کبھی ہے کبھی نہیں

اترائیں دل میں آپ نہ آئینہ دیکھ کر
یہ موسم بہار کبھی ہے کبھی نہیں

رغبت بھی ہے شراب سے نفرت بھی ہے مجھے
یہ چیز ناگوار کبھی ہے کبھی نہیں

یہ حال ہو گیا ہے کہ اس کے فراق میں
آنکھ اپنی اشک بار کبھی ہے کبھی نہیں

اک روز میرے پاس ہے اک روز ان کے پاس
دل کا بھی اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں

اے رنجؔ کیا بتاؤں علاج اس کا کیا کروں
دل کو مرے قرار کبھی ہے کبھی نہیں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse