اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
by قاسم علی خان آفریدی

اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
موہوم ہوا تو کیا پر یار ہے اور میں ہوں

پڑتی ہے نظر جیدھر وہ یار ہے اور میں ہوں
ہے کون سوا میرے دل دار ہے اور میں ہوں

میں یار کنے قاصد بھیجا تو ہے پر شاید
لے نامہ اگر آیا ریبار ہے اور میں ہوں

موڑوں گا نہیں منہ کو میں عشق کے میداں سے
اس یار کے ابرو کی تلوار ہے اور میں ہوں

اب دیکھیے کیا نبٹے سینہ ہے سپر اپنا
وہ خنجر مژگاں کا خوں خار ہے اور میں ہوں

جب سے بہ صنم خانہ کی میں نے قدم بوسی
سو طرح کی زاہد سے تکرار ہے اور میں ہوں

راہب نے مرے قشقہ صندل کا لگایا ہے
ناقوس ہے گھنٹہ ہے زنار ہے اور میں ہوں

نفع و ضرر دنیا دنیا ہی پہ میں چھوڑا
اب عشق کا اے یارو بیوپار ہے اور میں ہوں

حیراں میں ہوں اے یارو کس واسطے افریدیؔ
رسوائی بہ ہر کوچہ بازار ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse