اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
by داغ دہلوی

اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
کوئی جانے کہ وفا کرتے ہیں

یوں وفا عہد وفا کرتے ہیں
آپ کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں

ہم کو چھیڑوگے تو پچھتاؤگے
ہنسنے والوں سے ہنسا کرتے ہیں

نامہ بر تجھ کو سلیقہ ہی نہیں
کام باتوں میں بنا کرتے ہیں

چلئے عاشق کا جنازہ اٹھا
آپ بیٹھے ہوئے کیا کرتے ہیں

یہ بتاتا نہیں کوئی مجھ کو
دل جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں

حسن کا حق نہیں رہتا باقی
ہر ادا میں وہ ادا کرتے ہیں

تیر آخر بدل کافر ہے
ہم اخیر آج دعا کرتے ہیں

روتے ہیں غیر کا رونا پہروں
یہ ہنسی مجھ سے ہنسا کرتے ہیں

اس لیے دل کو لگا رکھا ہے
اس میں محبوب رہا کرتے ہیں

تم ملوگے نہ وہاں بھی ہم سے
حشر سے پہلے گلہ کرتے ہیں

جھانک کر روزن در سے مجھ کو
کیا وہ شوخی سے حیا کرتے ہیں

اس نے احسان جتا کر یہ کہا
آپ کس منہ سے گلہ کرتے ہیں

روز لیتے ہیں نیا دل دلبر
نہیں معلوم یہ کیا کرتے ہیں

داغؔ تو دیکھ تو کیا ہوتا ہے
جبر پر صبر کیا کرتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse