اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام و قیام سے
اسے حال و قال سے واسطہ نہ غرض مقام و قیام سے
جسے کوئی نسبت خاص ہو ترے حسن برق خرام سے
مجھے دے رہے ہیں تسلیاں وہ ہر ایک تازہ پیام سے
کبھی آ کے منظر عام پر کبھی ہٹ کے منظر عام سے
کیوں کیا رہا جو مقابلہ خطرات گام بہ گام سے
سر بام عشق تمام تک رہ شوق نیم تمام سے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے
مرے ساقیا مرے ساقیا تجھے مرحبا تجھے مرحبا
تو پلائے جا تو پلائے جا اسی چشم جام بہ جام سے
تری صبح عیش ہے کیا بلا تجھے اے فلک جو ہو حوصلہ
کبھی کر لے آ کے مقابلہ غم ہجر یار کی شام سے
مجھے یوں نہ خاک میں تو ملا میں اگرچہ ہوں ترا نقش پا
ترے جلوے کی ہے بقا مرے شوق نام بہ نام سے
تری چشم مست کو کیا کہوں کہ نظر نظر ہے فسوں فسوں
یہ تمام ہوش یہ سب جنوں اسی ایک گردش جام سے
یہ کتاب دل کی ہیں آیتیں میں بتاؤں کیا جو ہیں نسبتیں
مرے سجدہ ہائے دوام کو ترے نقش ہائے خرام سے
مجھے چاہیئے وہی ساقیا جو برس چلے جو چھلک چلے
ترے حسن شیشہ بدست سے تری چشم بادہ بہ جام سے
جو اٹھا ہے درد اٹھا کرے کوئی خاک اس سے گلا کرے
جسے ضد ہو حسن کے ذکر سے جسے چڑھ ہو عشق کے نام سے
وہیں چشم حور پھڑک گئی ابھی پی نہ تھی کہ بہک گئی
کبھی یک بیک جو چھلک گئی کسی رند مست کے جام سے
تو ہزار عذر کرے مگر ہمیں رشک ہے اور ہی کچھ جگرؔ
تری اضطراب نگاہ سے ترے احتیاط کلام سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |