Jump to content

اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا

From Wikisource
اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
by آسی غازی پوری
317264اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھاآسی غازی پوری

اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا

کوئی جہان میں کیا اور طرح دار نہ تھا
تری طرح مجھے دل پر تو اختیار نہ تھا

خرام جلوہ کے نقش قدم تھے لالہ و گل
کچھ اور اس کے سوا موسم بہار نہ تھا

وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیاد
کہ مثل تیر نظر آسماں شکار نہ تھا

غلط ہے حکم جہنم کسے ہوا ہوگا
کہ مجھ سے بڑھ کے تو کوئی گناہ گار نہ تھا

وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگہ یار ہوشیار نہ تھا

لحد کو کھول کے دیکھو تو اب کفن بھی نہیں
کوئی لباس نہ تھا جو کہ مستعار نہ تھا

تو محو گل بن و گلزار ہو گیا آسیؔ
تری نظر میں جمال خیال یار نہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.