Jump to content

اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل

From Wikisource
اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل
by نظیر اکبر آبادی
316016اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دلنظیر اکبر آبادی

اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل
جو ہے تیر نگہ سے چھانتا دل

بہت کہتے ہیں مت مل اس سے لیکن
نہیں کہنا ہمارا مانتا دل

کہا اس نے یہ ہم سے کس صنم کو
تمہارا ان دنوں ہے مانتا دل

چھپاؤگے تو چھپنے کا نہیں یاں
ہمارا ہے نشاں پہچانتا دل

کہا ہم نے نظیرؔ اس سے کہ جس نے
یہ پوچھا ہے اسی کا جانتا دل


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.