اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
by حفیظ جونپوری

اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
کہیں گے لوگ کہ دو دن نباہ کر نہ سکے

ہمیں جو دیکھ لیا جھک گئی حیا سے آنکھ
ادھر ادھر سر محفل نگاہ کر نہ سکے

خدا کے سامنے آیا کچھ اس ادا سے وہ شوخ
کہ منہ سے اف بھی ذرا داد خواہ کر نہ سکے

ترے کرم کا بھروسا ہی زاہدوں کو نہیں
اسی لیے تو یہ کھل کر نگاہ کر نہ سکے

رہا یہ پاس ہمیں آپ کی نزاکت کا
کہ دل کا خون ہوا منہ سے آہ کر نہ سکے

تمہیں حفیظؔ سے نفرت ہے تو یہ فکر ہے کیوں
کسی حسین سے وہ رسم و راہ کر نہ سکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse