اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے
by ثاقب لکھنوی

اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے
جو انتہا کو پہنچتے تو ابتدا کرتے

اگر زمانے میں اپنے کبھی وفا کرتے
دہان زخم تڑپنے پہ کیوں ہنسا کرتے

مریض لذت فریاد کہہ نہیں سکتے
جو نالے کام نہ آتے تو چپ رہا کرتے

ہم ان سے مل کے بھی فرقت کا حال کہہ نہ سکے
مزہ وصال کا کھوتے اگر گلہ کرتے

مذاق درد سے نا واقفی نہیں اچھی
کبھی کبھی تو مری داستاں سنا کرتے

شب فراق گوارا نہ تھی مگر دیکھی
اب اور خاطر مہماں زیادہ کیا کرتے

در قفس نہ کھلا قدر صبر کر صیاد
تڑپتے ہم تو پہاڑوں میں راستا کرتے

اسے جلا کے اسے آگ دی برا نہ کیا
جگر جو رکھتے تھے آخر وہ دل کو کیا کرتے

زبان والوں سے سن سن کے ہے یقیں ثاقبؔ
کہ بولتے تو صنم بھی خدا خدا کرتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse