اسیری بے مزہ لگتی ہے بن صیاد کیا کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اسیری بے مزہ لگتی ہے بن صیاد کیا کیجے
by ولی عزلت

اسیری بے مزہ لگتی ہے بن صیاد کیا کیجے
قفس کے کنج میں تنہا عبث فریاد کیا کیجے

مری تمکیں گئی مثل جرس برباد کیا کیجے
کہ میں تو چپ ہوں پر کرتا ہے دل فریاد کیا کیجے

اثر کرتا نہیں بن سجدۂ تسلیم کے نالہ
ہم اس مصرع پہ غیر از حلقۂ قد صاد کیا کیجے

کنار بے ستوں میں کیوں دیا نقش اپنے دلبر کا
تبھی فرہاد دنیا سے گیا ناشاد کیا کیجے

پٹکتا سر جو سنگ صورت شیریں سے بہتر تھا
عبث تیشے کے سر خوں دے گیا فرہاد کیا کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse