اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا
by اقبال سہیل

اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا
ابھی دیوار زنداں میں ہوا جاتا ہے در پیدا

کیے ہیں چاک دل سے بوئے گل نے بال و پر پیدا
ہوس ہے زندگانی کی تو ذوق مرگ کر پیدا

یہ مشت خاک اگر کر لے پر و بال نظر پیدا
تو اوج لامکاں تک ہوں ہزاروں رہ گزر پیدا

جمال دوست پنہاں پردۂ شمس و قمر پیدا
یہی پردے تو کرتے ہیں تقاضائے نظر پیدا

محبت تیرے صدقے تو نے کر دی وہ نظر پیدا
جدھر آنکھیں اٹھیں ہوتا ہے حسن جلوہ گر پیدا

شب غم اب منائے خیر اپنے جیب و دامن کی
رہے دست جنوں باقی تو کر لیں گے سحر پیدا

مذاق سر بلندی ہو تو پھر دیر و حرم کیسے
جبیں سائی کی فطرت نے کیے ہیں سنگ در پیدا

نثار اس لن ترانی کے یہ کیا کم ہے شرف اس کا
دل خوددار نے کر لی نگاہ خود نگر پیدا

جوانو یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا

وہ شبنم کا سکوں ہو یا کہ پروانے کی بیتابی
اگر اڑنے کی دھن ہوگی تو ہوں گے بال و پر پیدا

سہیلؔ اب پوچھنا ہے انقلاب آسمانی سے
ہماری شام غم کی بھی کبھی ہوگی سحر پیدا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse