اسیران قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں
Appearance
اسیران قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں
بھلا بلبل پہ یوں بھی ظلم اے صیاد کرتے ہیں
کمر کا تیرے جس دم نقش ہم ایجاد کرتے ہیں
تو جاں فرمان آ کر معنی و بہزاد کرتے ہیں
پس مردن تو رہنے دے زمیں پر اے صبا مجھ کو
کہ مٹی خاکساروں کی نہیں برباد کرتے ہیں
دم رفتار آتی ہے صدا پازیب سے تیری
لحد کے خستگاں اٹھو مسیحا یاد کرتے ہیں
قفس میں اب تو اے صیاد اپنا دل تڑپتا ہے
بہار آئی ہے مرغان چمن فریاد کرتے ہیں
بتا دے اے نسیم صبح شاید مر گیا مجنوں
یہ کس کے پھول اٹھتے ہیں جو گل فریاد کرتے ہیں
مثل سچ ہے بشر کی قدر نعمت بعد ہوتی ہے
سنا ہے آج تک ہم کو بہت وہ یاد کرتے ہیں
لگایا باغباں نے زخم کاری دل پہ بلبل کے
گریباں چاک غنچے ہیں تو گل فریاد کرتے ہیں
رساؔ آگے نہ لکھ اب حال اپنی بے قراری کا
برنگ غنچہ لب مضموں ترے فریاد کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |