اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
by اصغر گونڈوی

اسرار عشق ہے دل مضطر لیے ہوئے
قطرہ ہے بے قرار سمندر لیے ہوئے

آشوب دہر و فتنۂ محشر لیے ہوئے
پہلو میں یعنی ہو دل مضطر لیے ہوئے

موج نسیم صبح کے قربان جائیے
آئی ہے بوئے زلف معنبر لیے ہوئے

کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے
ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے

قاتل نگاہ یاس کی زد سے نہ بچ سکا
خنجر تھے ہم بھی اک تہ خنجر لیے ہوئے

خیرہ کیے ہے چشم حقیقت شناس بھی
ہر ذرہ ایک مہر منور لیے ہوئے

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے

تصویر ہے کھنچی ہوئی ناز و نیاز کی
میں سر جھکائے اور وہ خنجر لیے ہوئے

صہبائے تند و تیز کو ساقی سنبھالنا
اچھلے کہیں نہ شیشہ و ساغر لیے ہوئے

میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے

نام ان کا آ گیا کہیں ہنگام باز پرس
ہم تھے کہ اڑ گئے صف محشر لیے ہوئے

اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لیے ہوئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse