ازل کی یاد میں میں گرم آہ سرد ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ازل کی یاد میں میں گرم آہ سرد ہوا
by راغب بدایونی

ازل کی یاد میں میں گرم آہ سرد ہوا
لگی تھی چوٹ کبھی اور آج درد ہوا

گزر گیا یہ نگاہوں سے تیرا مرکب حسن
تمام عالم دل اک قدم میں گرد ہوا

غلط کہ قابل دار و رسن ہوں اہل ہوس
بندھائی عشق نے ہمت جسے وہ مرد ہوا

پرے وہ عقل سے ہیں اس یقیں نے روک لیا
کبھی جو وہم کے پیچھے میں رہ نورد ہوا

تمام تجربۂ گرم و سرد عشق کہاں
کچھ اشک گرم ہوا دل کچھ آہ سرد ہوا

نقاب ان کی اٹھی تھی کہ ہم ہوئے بے ہوش
نگاہ ان سے لڑی تھی کہ دل میں درد ہوا

کرم سے اپنے مٹا دو کہ بے قرار ہے عشق
مرا وجود کہ دنیا کے دل کا درد ہوا

شہود بے جہت و کیف منسلک راغبؔ
جنوں اسے جو کسی سمت رہ نورد ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse