ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی
by بیخود موہانی

ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی
ابد کیا صرف اک بدلی ہوئی سرخی فسانے کی

تڑپتی بجلیاں پھر خانہ‌ بربادی کے درپئے ہیں
قفس کی خیر یا رب ہو چکی خیر آشیانے کی

ہماری زندگی بھی ایک فرصت تھی مگر کتنی
فقط رنگ تمنا کے چڑھانے یا اڑانے کی

قفس اک تار ہے تن ایک مٹی کا گھروندا ہے
حقیقت قید کی یہ ہے یہ ہستی قید خانے کی

وہ آنکھیں دیکھ کر میں کیا زمانہ کہنے لگتا ہے
کہ ان میں ہے جسے کہتے ہیں سب گردش زمانے کی

ہماری زندگی بد مستیوں کا دور تھی بیخودؔ
ادھر ہو کر نہیں نکلی تمنا ہوش آنے کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse