ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا
by آرزو لکھنوی

ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا
کیا ہے لوح نے محفوظ افسانہ محمد کا

ڈرے کیا آتش دوزخ سے دیوانہ محمد کا
کہ اٹھے شعلے گل کرتا ہے پروانہ محمد کا

ظہور حال و مستقبل سے ماضی کو ملا دوں گا
مجھے پھر آج دہرانا ہے افسانہ محمد کا

دوئی ایک داغ تہمت، غیرت الزام بے معنی
دہ دنیا ہے جسے اپنائے یارانہ محمد کا

شفاعت کی دعا میں وہ ہوا دیتے ہیں پر اس کے
جہنم کو بجھا سکتا ہے پروانہ محمد کا

یہاں سے تابہ جنت روک ہے کوئی نہ پرشس ہے
جہاں چاہے چلا جا ، بن کے پروانہ محمد کا

رسائی کب ہے اس تک ہوش انساں عقل درسی کی
جو اپنی رد میں کہہ جاتا ہے دیوانہ محمد کا

شعاع اس پار شیشے کے ، نظر اس پار شیشے کے
جھلک دیکھی کہ پہنچا اڑ کے پروانہ محمد کا

درود اول سخن ہو آرزو ، پھر شعر نعتیہ
زباں دھو ڈال اگر کہنا ہے افسانہ محمد کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse