Jump to content

اردو کا حال اور مستقبل

From Wikisource
اردو کا حال اور مستقبل
by مولوی عبد الحق
319562اردو کا حال اور مستقبلمولوی عبد الحق

‏(یہ خطبۂ صدارت انجمن حمایت اسلام لاہور کے اکیانویں سالانہ اجلاس میں بحیثیت صدر شعبۂ اردو ۱۲‏‎/‎اپریل ۱۹۳۶ء کو پڑھ کر سنایا گیا۔)

اے صاحبو!‏میں نے لڑکپن میں انجمن حمایت اسلام کا بچپن دیکھا تھا اور اب بڑھاپے میں اس کی جوانی کی بہار دیکھ رہا ہوں۔ میں جوں جوں بڑھتا ‏جاتا ہوں، بڈھا ہوتا جاتا ہوں۔ یہ جوں جوں بڑھتی جاتی ہے، جوان ہوتی ہوتی ہے۔ اور اے اہل پنجاب! جب تک آپ کی ہمت جوان ہے، ‏اس کی جوانی کبھی ڈھلنے نہ پائےگی۔ اس کی ابتدا کا خیال کیجیے تو ایک نازک پودے سے زیادہ نہ تھی، جس کی فنا کے لیے ہوا کا ایک جھونکا کافی تھا ‏مگر آج یہ ہری بھری لہلہاتی کھیتی نظر آتی ہے۔ یہ آپ کے استقلال اور ایثار کی بے نظیر مثال ہے۔ یہ انجمن آپ کی سرزمین پر ابر رحمت کی ‏طرح چھائی ہوئی ہے۔ اس کے ادارے بڑھتے جاتے ہیں، اس کے کارخانے ترقی پر ہیں، اس کے مقاصد میں وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے اور ‏اس کا اثر اور اس کی وقعت مسلم ہے۔ ‏اس کی جواں ہمتی کایہ تازہ ثبوت ہے کہ اس نے عین وقت پر اپنی زبان کی بقا اور فروغ کی طرف توجہ کی ہے، جس پر میں آپ کو دل سے ‏مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے جو پنجاب نے اردو کی دست گیری کی۔ وہ ابتداسے اس کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہا ہے۔ ‏اردو کی اشاعت اور ترقی میں پنجاب برابر کا شریک رہا ہے اور اب تو شریک غالب ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پنجاب نے اسے اپنی زبان بنا لیا ‏ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اسے ’’اپنی زبان‘‘سے بھی زیادہ عزیز سمجھتا اور عزیز رکھتا ہے۔ اس لیے انجمن حمایت اسلام کا اس سال ‏اپنے سالانہ جلسے میں اردو کا اجلاس رکھنا سنت قدیم کی پابندی اور موقع شناسی کی دلیل ہے۔ ‏حضرات! زبان صرف اظہار خیال کا آلہ نہیں بلکہ ہماری زندگی کا جز ہے۔ ہرشخص جو اسے بولتا یا کام میں لاتا ہے وہ اپنی بساط کے موافق اس ‏میں اپنی زندگی کا کچھ نہ کچھ نشان ضرور چھوڑتا جاتا ہے۔ اس میں ہمارے تمدن وشائستگی، خیالات و جذبات، تجربات اور مشاہدات کی تاریخ ‏پنہاں ہے۔ ہر لفظ ایک زندہ شے ہے جو اپنے منہ سے اپنی حکایت بیان کر رہا ہے۔ ہمارے اسلاف نے کیسی کیسی محنت و مشقت سے اسے ‏پالا پوسا ہے اور اپنے خون سے سینچا ہے۔ یہ ایک مقدس میراث ہے جو نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچی ہے۔ ہم ناخلف ہوں گے اگر ہم نے اسے ‏قائم نہ رکھا اور اس کی ترقی و فروغ میں پوری کوشش نہ کی۔ ‏اس وقت اردو زبان کی ترقی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک میں عام طور سے زبان کی اشاعت کے ذرائع اختیار کیے جائیں۔ مثلاً اردو ‏مدارس اور کتب خانوں کا قیام، سرکاری اور غیرسرکاری مدارس میں اردو کی شرکت، موجودہ نصاب اردو کی اصلاح، اردو کی انجمنوں کا قائم ‏کرنا اور ایسے اردو اخباروں اور رسالوں کا اجراجو سلیس زبان میں زمانۂ حال کے حالات اور واقعات کواس طرح سنجیدگی اور صفائی سے پیش ‏کریں کہ ہر پڑھا لکھا شخص سمجھ سکے اور مستفید ہو سکے۔ وہ اپنی رائے میں بے لاگ ہوں اور انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ‏ان جرائد کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہو لیکن مخصوص طور پر وہ اپنی زبان کے نگراں ہوں، یعنی وہ اپنی زبان کے متعلق ہرقسم کی خبریں ‏مہیا کریں، مختلف علاقوں میں زبان کی جو حالت ہے اس سے آگاہ کریں اور ان مقامات میں جن اصلاحوں اور کوششوں کی ضرورت ہے ان پر ‏بحث کریں، اردو تالیفات کا جائزہ لیں، انصاف کے ساتھ تنقید و تبصرہ کرکے ان کے حسن و قبح کو ظاہر کریں۔ ان تمام تجویزوں سے بڑھ کر ‏ایک ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مؤلفین و مترجمین کی قدر افزائی کی جائے جو اپنی زبان میں قابل قدر کام کر رہے ہیں۔ ‏دوسری صورت زبان کی ترقی کی یہ ہے کہ زبان کو مستحکم اور شائستہ بنایا جائے۔ استحکام سے میری مراد یہ ہے کہ مختلف قسم کی جامع لغات، ‏مبسوط صرف و نحو، انسائیکلوپیڈیا کی تالیف اور ہر قسم کے علوم و فنون پر تالیفات مہیا کی جائیں۔ زبان کو شائستہ بنانے کے معنی یہ ہیں کہ زبان ‏میں صفائی، شستگی اور پختگی پیدا ہو، وہ نازک سے نازک خیال ادا کرنے پر قادر ہو اور اس میں مختلف اسالیب بیان کے سانچے موجود ہوں۔ یہ ‏اسی وقت ممکن ہے جب کہ زبان میں اعلیٰ درجے کی تصانیف و تالیفات اور غیرزبانوں کی بہترین تصانیف کے ترجموں کا ذخیرہ فراہم ہو جو ‏اہل قلم کی رہنمائی کر سکے۔ ‏پہلی شق یعنی اشاعت زبان کے متعلق انجمن ترقیٔ اردو نے ڈول ڈالا ہے۔ سب سے اول یہ تجویز ہے کہ ہندستان کے تمام علاقوں اور صوبوں ‏میں اردو زبان کا جائزہ لیا جائے، جس کایہ مطلب ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تحقیق طور سے یہ معلوم کیا جائے کہ ان علاقوں میں اردو سمجھنے، ‏بولنے والوں اور پڑھے لکھوں کی کیا تعداد ہے، کتنے سرکاری اور امدادی مدارس ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے، یہ تعلیم کس درجہ ‏تک ہے اور طلبہ کی کیا تعداد ہے، اس کے درسی نصاب کی کیا حالت ہے، قدیم طرز مدارس کی تعداد جن میں اردو پڑھائی جاتی یاذریعۂ تعلیم ‏ہے کتنے ہیں اور ان میں طلبہ کی تعداد کیا ہے، سرکاری اور نجی اردو کتب خانوں کی تعداد، ایسی انجمنوں اور اداروں کی تعداد جو اردو کی خدمت ‏کرتے ہیں، اردو مطابع اور جرائد کی تعداد اور حالت، سرکاری محکموں اور عدالتوں میں اردو کی حیثیت۔ ‏ان شمار واعداد کے علاوہ یہ بھی دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہاں اردو زبان ترقی پہ ہے یا انحطاط پر اور اس کے کیا اسباب ہیں، ‏لوگوں کو اردو سیکھنے اور پڑھنے کا شوق ہے یانہیں، وہاں کی زبان کی مقامی خصوصیات، اردو کا اثر قرب وجوار کی زبانوں پر، وہاں کی قدیم تصانیف ‏اور مصنفین اور شعرا کے نام وغیرہ وغیرہ۔ نیز اس بات کے کھوج لگانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ ہر علاقے میں اس کے حالات کی رو ‏سے اردو کی اشاعت و ترقی کے لیے کیا تدابیر عمل میں لائی جائیں۔ ‏یہ تجویز جب میں نے شروع میں ایک منتخب کمیٹی کے سامنے پیش کی تھی تو اس کی مشکلات دیکھ کر ارکان مجلس کو اس کی کامیابی کے متعلق ‏بہت کچھ شبہ تھا اور بعض دوستوں نے مجھے لکھا بھی کہ تم کس خبط میں گرفتار ہو، یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے۔ لیکن میں کسی قدر ‏خوشی سے یہ اطلاع دیتا ہوں کہ بعض صوبوں اور علاقوں سے مکمل رپورٹیں وصول ہو گئی ہیں اوربعض میں کام جاری ہے۔ ہرعلاقے سے ‏رپورٹیں وصول ہونے پر ایک مکمل رپورٹ شائع کی جائےگی۔ یہ گویا تمام ہندستان میں اردو زبان کی موجودہ حالت کا آئینہ ہوگا۔ یہ ایک ‏نہایت ضروری اور بنیادی کام ہوگا۔ اس پر ہم اپنی عمارت کھڑی کرسکیں گے۔ تمام حالات معلوم ہونے پر ہم ہر صوبے اورعلاقے میں اردو ‏کی اشاعت و ترقی کا کام شروع کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا صوبہ اس معاملے میں سب سے پیش پیش ہوگا۔ ‏دوسری شق زبان کے مستحکم اور شائستہ بنانے کی ہے۔ انجمن ترقیٔ اردو اس کی طرف سے بھی غافل نہیں رہی۔ چنانچہ اس نے قدیم کمیاب ‏تذکرے اور قدیم اردو کی کتابیں جن پر اردو ادب کی تاریخ کابہت کچھ انحصار ہے، ڈھونڈ کر طبع کرائیں اور ان کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں ‏جو اب تک ہمارے ادب کی تاریخوں میں چلی آرہی تھیں رفع ہو گئیں اور اس وقت سے اردو ادب کی تاریخ کا رنگ ہی بدل گیا۔ ‏اس کے علاوہ مختلف قسم کی لغات زیر ترتیب وزیر طبع ہیں۔ مثلاً انگریزی اردو کی جامع لغات جو زیر طبع ہے اور چند ماہ میں چھپ کر شائع ‏ہو جائےگی، اصطلاحات پیشہ وراں جو تقریباً مکمل اور زیر نظر ثانی ہے، اس کا پہلا حصہ عنقریب مطبع میں پہنچ جائےگا۔ قدیم اردو کی لغات ‏وغیرہ، اردو زبان کی مبسوط جامع لغات جو نظام گورنمنٹ کی سرپرستی میں مرتب ہو رہی ہے، وہ بھی انجمن ہی کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ ایک ‏دوسری تجویز جواس وقت انجمن کے زیر غور ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کی اعلیٰ زبانوں کی جس قدر بہترین تصانیف ہیں، ان کا اردو میں ترجمہ ‏کر دیا جائے۔ اس کی فہرست تیار ہو چکی ہے اور اب اسے عمل میں لانے کی تدبیر کی جا رہی ہے۔ یہ کام اگر سرانجام پا گیا تو عظیم الشان کامیابی ‏ہوگی۔ ‏اس مختصر ذکر سے میرامقصد اس بات کا جتانا ہے کہ ادبی اداروں کو وہ اہم کام کرنے چاہییں جو افراد کے بس کے نہیں۔ اگر ادبی ادارے بغیر ‏کسی اصول کو مدنظر رکھے ایسے ہی کام کرتے رہے جو قابل تعلیم یافتہ لوگ فرداً فرداً کر سکتے ہیں تو ایسے ادارے کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتے، ‏بلکہ بعض حالات میں مضرہوں گے کیونکہ اس میں محنت، وقت، روپیہ زیادہ صرف ہوتا ہے اور کام اس کے مقابلے میں ویسا نہیں ہوتا جس ‏کی توقع کی جاتی ہے۔ ایک مدت کے تجربہ کے بعد اور کچھ کھوکر یہ اتنی سی بات معلوم ہوئی ہے لیکن اسے حقیر خیال نہ کیجیے، یہ بہت بڑی ‏بات ہے اور اس لیے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ صاف صاف اس کا اظہار کر دوں۔ ‏اس کے متعلق ایک دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنی زبان کی حفاظت اور ترقی منظور ہے تو اب ادبی اداروں کو متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔ ‏اتحاد عمل میں بڑی برکت اور قوت ہوتی ہے۔ جو کام فرداً فرداً مشکل اور محال معلوم ہوتا ہے، وہ باہمی مشورے اور اتحاد سے آسان ‏ہو جاتا ہے۔ ہمیں مل کر پہلے سے اپنے ’’اعمال نامے‘‘ تیار کر لینے چاہییں کہ کیا کیا کرنا ہے، کیونکر کرنا ہے اور کتنی مدت میں کرنا ہے۔ ‏یہ موقع اس کی تفصیل کا نہیں۔ اسے میں نے دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا ہے۔ ‏حضرات! اردو زبان میں ایسے ادیب، شاعر اور انشاپرداز گزر چکے ہیں اور بعض اب بھی ہیں جن پر ہم بجا طور سے فخر کر سکتے ہیں لیکن جب ‏ہم دوسری مہذب اور ادبی زبانوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو اپنی زبان کی کم مائیگی پر افسوس ہوتا ہے۔ اس کمی کی تلافی ہمارا فرض ہے۔ اس ‏میں شک نہیں کہ کام کرنے والے کام کر رہے ہیں، ادبی اور علمی ادارے اپنی بساط کے موافق ہمارے ادب و علم کے ذخیرے میں اضافہ ‏کر رہے ہیں، اخبار اور رسالے بھی پہلے سے بہت بڑی تعداد میں شایع ہوتے ہیں، شعر و شاعری کا بھی خوب چرچا ہے بلکہ بعض اوقات وبال ‏جان ہوتا ہے لیکن ایک بات جو مجھے کھٹکتی ہے اسے کہے بغیر نںیں رہ سکتا۔ ‏سرسید احمد خاں کے زمانے میں (جو جدید ادب کے بانی نہیں تو فروغ دینے والے ضرور تھے) ہماراادب عروج پر تھا۔ اس وقت ایسے ایسے ‏ادیب پیدا ہوئے جن کا نام ہمارے ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہےگا۔ وہ زندگی کے صحیح معنی سمجھتے تھے اور دوسروں کو سمجھانے کی کوشش ‏کرتے تھے۔ ہم بے خبری اور غفلت کے عالم میں تھے، انہوں نے ہمیں جھنجوڑا، چونکایا، خبردار کیا اور رستے پر لگایا۔ وہ ادبی مجاہد تھے۔ وہ ‏سربکف میدان عمل میں اترے اور زندگی کی مشکلات سے مردانہ وار ٹکراتے اور مقابلے کرتے رہے اور اکثر پر غالب آئے۔ انہوں نے اپنے ‏زور بیان اور قوت تحریر سے ہل چل مچادی اور سب کو ایک مرکز پر لے آئے۔ ان میں خلوص، بے غرضی، درد اور ایثار تھا۔ انہوں نے اپنے ‏درد سے دوسروں میں سوز، اپنے خلوص اور بےغرضی سے دلوں میں جلا اور اپنے ایثار سے حب قوم پیدا کی اور ایک جماعت ایسی کھڑی ‏کر دی جو اپنی قوم کے لیے کام کرنا شرافت اور انسانیت ہی نہیں بلکہ باعث نجات سمجھتی تھی۔ کیا اب بھی ہمارے ادب کی یہی حالت ہے؟ ‏یہ دیکھ کر کس قدر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر اس راستے سے ہٹتے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کی کشمکش سے جھینپتے اور مشکلات سے ‏کنیاتے ہیں۔ اس لیے وہ عالم خیال کی سیر کرتے رہتے ہیں اور دل فریب خوابوں سے اپنا جی بہلاتے ہیں۔ ہمیں جہاد کی ضرورت ہے اور وہ ‏سیروتفریح کے سامان فراہم کر رہے ہیں۔ شعروادب صرف ’’حظ نفس‘‘ کے لیے ہی نہیں ہے، اس سے اور بھی بڑے بڑے کام نکل سکتے ‏ہیں تاکہ یہ حظ نفس کے ساتھ قوت روح بھی ہو جائے۔ ہمیں شعروادب کی ان تعریفات سے فی الحال قطع نظر کر لینا چاہیے جو فارغ البال ‏اور عیش پرست قوموں نے کی ہیں۔ ‏اس زمانے میں جب کہ ہم طرح طرح کی کشاکشوں میں گرفتار ہیں، ان سے آلات حرب کا کام لینا چاہیے۔ آلات حرب سے خدانخواستہ میری ‏یہ مراد نہیں کہ ہم ملک میں فتنہ وفساد پیدا کریں۔ نہیں، بلکہ ان سے زندگی کی جنگ میں کام لینا چاہیے۔ ان کے ذریعہ سے دلوں کے ‏ابھارنے، زندگی کے سنوارنے، شکوک کے مٹانے اور توہمات کی بیخ کنی میں مدد لیجیے۔ سید احمد خانی درد اور ایثار دکھائیے کہ بغیر اس کے کسی ‏خیال میں گرمی اور اثر پیدا نہیں ہو سکتا۔ جس دل میں آگ نہیں وہ دوسروں میں چنگاریاں کیونکر پیدا کر سکتا ہے۔ جس دل میں لگن نہیں وہ ‏دوسروں کو کیسے ابھار سکتا ہے۔ ‏یہ لگن کہاں سے اور کیونکر آئے؟ یہ اس وقت پیدا ہوگی جب آپ میدان میں آئیں گے، لوگوں کی بھیڑ میں گھسیں گے، کھوے سے کھوا چھلے‏گا، ہر طرف سے ٹکریں لگیں گی، مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی، زندگی اصلی روپ میں نظر آئےگی، اس وقت آپ کے ‏دل پر چوٹ لگے گی اور درد اور خلوص پیدا ہوگا۔ اس وقت آپ کی صریر قلم ہولناک توپوں کی آواز سے زیادہ کارگر اور آپ کی زبان کا ایک ایک ‏لفظ شمشیر کے گھاؤ سے زیادہ کاری ہوگا۔ ‏یہ سچ ہے کہ یہ زمانہ بہت نازک ہے۔ بیکاری روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ معاشیاتی پیچیدگیوں نے ملک کو خستہ کر رکھا ہے، جس سے ادیب اور ‏شاعر دونوں چوکڑی بھول گئے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ امتحان کاہے، یہیں ادیب اور شاعر کے جوہر کھلتے ہںد اور یہی ‏وقت اسے اپنے خداداد جوہر سے کام لینے کا ہے۔ جو ادیب اور صناع الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے اور کار زار زندگی میں شریک نہیں ‏ہونا چاہتا اور خلوص کے ساتھ اپنے فطری جوہر کو کام میں نہیں لانا چاہتا، وہ مجرم ہے اور اس کی سزا وہی ہے جو ایک غدار کی ہوتی ہے۔ زبان ‏بنی نوع انسان کی عملی اور روحانی زندگی کے لیے نہایت درجہ ضروری ہے۔ اس لے زبان وادب کی ترقی (جہاں تک ممکن ہو سکے) اسے قوم ‏کی ضروریات اور حالات کے مطابق بنانے میں ہے۔ یہ نکتہ ہمارے ادیبوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ ‏حضرات! زبان بلاشبہ ایک معاشرتی ضرورت اس کی تخلیق کا باعث ہوئی اور وہ اس کی زندگی کا ایسا جزو ہے جو اس سے کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔ ‏وہ انسان سے الگ کوئی شے نہیں ہے۔ وہ ان لوگوں سے وابستہ ہے جو اسے بولتے اور اس میں فکر کرتے ہیں۔ اس کی جڑیں ہمارے دل ‏ودماغ اور جسم میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہیں سے اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ زبان کی ترقی و انحطاط معاشرتی حالات کے تابع ہے۔ یہی وجہ ہے ‏کہ علمائے لسانیات تمدن ومعاشرت کی تاریخ کو زبان کی تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ اسے وقتی سیاسیات کا رنگ دینا سوتے ہوئے فتنے ‏کو جگانا ہے۔ کیا سیاسی کانگریسیوں اور سبھاؤں کے لیے یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ اس وقت تک تہذیبی اور ذوقی معاملات پر ہاتھ نہ ڈالیں جب تک ‏وہ قومیت کی کوئی صورت قایم نہ کر لیں؟ اس سے زیادہ قابل الزام وہ سیاسی حضرات ہیں جو زبان کے پردے میں جس کی تہ زمین سیاست ‏ہے، اس مسئلہ کو چھیڑ کر طرح طرح سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ‏انڈین نیشنل کانگریس نے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ ہندستان کی زبان ہندستانی ہوگی، خواہ وہ ناگری حروف میں ہو یا فارسی حروف میں۔ یہ ‏فیصلہ معقول تھا اور اس دور اندیشی پر مبنی تھاجو اس قسم کی کانگریسں ایسے موقعوں پر عمل میں لاتی ہیں لیکن ان صاحبوں کے اطمینان کے لیے ‏کافی نہ تھا جن کا منشا کچھ اور تھا۔ انہوں نے اس رزولیوشن کو طفل تسلی سے زیادہ وقعت نہ دی اور دوسری ادھیڑ بن میں لگ گیے۔ ان کی ‏کوششوں کا نتیجہ اپریل ۱۹۳۵ء میں ظہور میں آیا۔ یعنی ہندی سمیلن کا سالانہ جلسہ اندور میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مہاتما گاندھی نے ‏فرمائی۔ اس جلسے میں بالاتفاق یہ قرار داد منظور

ہوئی،‏

’’اب ہندی ملکی زبان کی صورت اخیتار کرکے خاص و عام کی زبان ہو چکی ہے۔ مہاتما گاندھی جیسے ملک کے سدھارنے والے اسے زندہ ملکی ‏زبان بنانے کا عہد کر چکے ہیں۔‘‘خود مہاتماجی کا خط ملاحظہ فرمائیے، جو انہوں نے ’’ہنس‘‘ کے متعلق تحریر فرمایا ہے،‏‘‘ہنس ہندستان بھر میں انوکھا پریتن ہے۔ یدی ہندی اتھوا ہندستانی کو راشٹربھاشا بنانا ہے تو ایسے ماسک کی آوشکتا ہے۔ پرتیک پرانت کی ‏بھاشا میں جو لیکھ لکھا جاتا ہے اس کا پرچیے راشٹر بھاشا دواراسب کو ملنا چاہیے۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ اب ایسا پرچیے دل چاہے ان کو ‏ہنس دوار اپرت ماس ادھے روپے میں ادا کرےگا۔‘‘ ‏اس ہوشیاری کو آپ نے دیکھا۔ اب تک ملک کی زبان ’’ہندستانی‘‘ تھی اور سب سے بڑی اورسب سے زیادہ منظم اور باوقعت کانگریس نے ‏اسے علی الاعلان تسلیم کر لیا تھا، لیکن اب ہندی یا ہندستانی ہو گئی۔ یہ ہندستانی کے الفاظ خاص ذہنیت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ ‏حذف ہو جائیں گے بلکہ یہ سمجھیے کہ ہو گئے، جیسا کہ ’’ہنس‘‘کے اڈیٹروں کی تحریر سے صاف ظاہر ہے۔ اب اس تحریر کا (جسے مہاتماجی ‏ہندستانی کہتے ہیں) مہاتماجی کے اس خط سے مقابلہ کیجیے جو انہوں نے حکیم اجمل خاں کو اردو زبان اور اردو رسم خط میں لکھا تھا اور جس ‏کا عکس بعض رسالوں میں شائع ہو چکا ہے۔ ان دونوں میں سے ہم کس زبان کو ہندستانی کہیں۔ زبان کو سیاسیات کے خارزار میں گھسیٹنے اور ‏سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنانے کا یہ نتیجہ ہے کہ دو طبقوں میں بجائے اتفاق کے نفاق اور بڑھتا جاتا ہے۔

اب مہاتماجی جس زبان کو ہندی یا ہندستانی کہتے ہیں، اس کا ایک نمونہ تو آپ نے خود ان کے خط میں دیکھ لیا۔ دوسرا نمونہ ہنس کے فاضل اڈیٹر ‏منشی پریم چند کی تحریر سے پیش کیا جاتا ہے،’’آپ نے بہت ٹھیک کہا کہ کوتاکیول منورنجن کی وستو نہیں اور نہ گا گاکر سنانے کی چیز ہے۔ وہ تو ہمارے ہردے میں پریرناؤں کو ڈالنے والی، ‏ہمارے اوساد گرست من مں آنندمے اسپھورتی کا سنچار کرنے والی ہم میں کومل بھاؤ ناؤں کو جگانے والی (استرین بھاؤ ناؤں کی نہیں) ‏وستو ہے۔‘‘

اسے مہاتا گاندھی ہی ہندستانی کہہ سکتے ہیں ورنہ کسی اور زبان داں کو یہ جرأت نہیں ہو سکتی۔ یہ میں نے آسان سا جملہ آپ کو سنایا ہے۔ اگر ‏میں اس رسالے کے کسی مضمون کا کوئی حصہ سناتا توآپ کانوں میں انگلیاں دے لیتے اور کہہ اٹھتے،گرتو ہندی بدیں نمط خوانیببری رونق زباں دانیاور یہ بھی یاد رہے کہ جو جملے میں نے ابھی آپ کو سنائے ہیں، یہ ایسے شخص کی تحریر ہے جو اردو کابھی ایسا ہی اچھا ادیب ہے جیسے ہندی کا اور ‏جو ان لوگوں میں سے ہے جو ہندستانی زبان کے فروغ کے حامی ہیں۔ مجھے اس کی زبان پر مطلق اعتراض نہیں، یہ بہت صحیح اور فصیح ہندی ہے ‏لیکن اسے ہندستانی کہنا لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنا ہے۔ ممکن ہے کہ مہاتما گاندھی جو توجیہ و تاویل کے فن کے استاد کامل ہیں، لفظ ‏اتھوا(یا) کے کچھ اور معنی پیداکرلیں ورنہ بحالت موجودہ ہندی یا ہندستانی کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہو سکتا۔ زبان کا آسان یامشکل ہونا ایک ‏دوسری بات ہے۔ ہر ایک کا ایک اسلوب بیان یا طرز تحریر ہوتا ہے اور خاص کر ادبی اور سائینٹفک مضامین میں لامحالہ زبان مشکل ہو جاتی ہے ‏لیکن جو تحریر جس زبان میں ہے، اسے اسی زبان سے منسوب کرنا مناسب ہے۔ لفظوں کے داؤ پیچ سے غلط فہمیاں پیدا کرنا درست نہیں۔ ‏میں یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں تک مےھص علم ہے، ’’ہنس‘‘کے قابل اڈیٹروں نے اپنے رسالے کی زبان کو کبھی ہندستانی ‏نہیں کہا۔ یہ مہاتما گاندھی ہیں جو ’’ہنس‘‘ کی زبان کو ہندستانی کہتے ہیں اور ایسی بڑی جسارت ایساہی بڑا آدمی کر سکتا ہے۔ اگرچہ ہمیں ہنس کے ‏اڈیٹروں کے اس قول کے تسلیم کرنے میں بہت تامل ہے کہ اب ہندی زبان تمام ہندستان کی عام زبان ہو گئی ہے۔ ‏اس رنگ کو (یعنی سیاسی رنگ کو) اور گہرا کرنے کے لیے اکثر اوقات اور عموماً مذہب کی پٹ دی جاتی ہے۔ جس زمانے میں شدھی اور ‏سنگھٹن کا زور تھا، اس بدعت نے بھی زور پکڑا۔ اگرچہ شدھی اور سنگھٹن کا مقصد ہندوؤں کی تنظیم اور تقویت اور ہندومذہب کی تبلیغ تھا، ‏لیکن زبان بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ اگر آپ شدھی اور سنگھٹن کے قبل کے ہندی ادب کا مقابلہ بعد کے ہندی ادب سے کریں گے تو معلوم ‏ہوگا کہ ہندی کی اصل اشاعت وترقی اسی وقت سے شروع ہوئی ہے۔ جب کوئی وار کارگر نہیں ہوتا تو مذہب اور سیاسیات کی آڑ لی جاتی ہے۔ ‏لوگوں کو اکسانے اور ان میں جوش پیدا کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چلتا ہواعمل نہیں ہے۔ ‏زبان کو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، انسانی ضرورت نے پیدا کیا اور زبان اور اس کے ادب کا ارتقا زمانے کی ضروریات اور حالات و افکار کے ‏تابع رہا اور آئندہ بھی رہےگا۔ مذہب کے نام سے یاسیاسیات کے پردے میں اس کی اشاعت کا پراپیگنڈا کرنا خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ ‏نفاق کی آگ ملک میں بھڑک رہی ہے، دانش مندانہ فعل نہیں ہے۔ اس قسم کی تحریکوں سے نہ صرف اردو داں طبقے کو صدمہ پہنچا بلکہ ‏نیشنل کانگریس کی اس قرارداد کی بھی بے وقعتی ہوئی جس کی رو سے ’’ہندستانی‘‘ ملک کی عام زبان قرار پائی تھی اور ہندستانی قومیت اور ‏ہندستانی زبان و ادب کے بنانے کے لیے دلیرانہ اور دانش مندانہ پیش قدمی کی گئی تھی۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ ہندستانی کے معنی ہندی ہیں ‏اور اس کی تائید میں مہاتما گاندھی کا بیان سب سے بڑی شہادت ہے۔ ‏ابھی حال میں آپ کے پڑوس کے صوبے میں اسی قسم کا ہنگامہ بپا ہواتھا۔ اس میں بھی سیاسی رنگ کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اگرچہ صوبہ سرحد ‏کی مقامی زبان جسے وہاں کا تقریباً ہر باشندہ بولتا اور سمجھتا ہے پشتو ہے یا پنجابی، اب جو انہوں نے اپنی مقامی زبان ترک کرکے اردو کو اپنے ‏نصاب تعلیم میں داخل کیا ہے تو ان کا یہ فعل قابل تعریف ہے نہ لایق مذمت۔ انہوں نے بڑی اخلاقی جرأت سے کام لیا ہے اور محض ‏ہندستانی قومی زبان کی خاطراتنی بڑی قربانی کی ہے۔ جو لوگ ہندستانی قومیت کے خواب دیکھ رہے ہیں انہیں خوش ہونا چاہیے کہ صوبۂ سرحد ‏نے اس طرف سب سے پہلے قدم بڑھایا ہے۔ اس معاملے کے متعلق میں کچھ زیادہ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ آپ مجھ سے بہتر ان باتوں کو جانتے ‏اور سمجھتے ہیں۔ ‏ایک اور تازہ واقعہ سنیے کہ مسلمانوں نے دہلی کے نشرگاہ (یعنی براڈ کاسٹنگ سٹیشن) کی زبان کے متعلق ایک شاخسانہ نکالا ہے۔ سننے والوں نے ‏نہیں بلکہ اسمبلی کے بعض ممبروں نے۔ وہی سیاسی رنگ! سنا جاتا ہے کہ اس زبان پر جسے کبھی ہندستان کی عام زبان بنانے کا ارادہ تھا، نزلہ ‏گرنے والاہے اور اس کے پروگرام میں اس قسم کی تبدیلی ہونے والی ہے کہ اردو یا ہندستانی برائے نام رہے اور اس کی جگہ مہاتما گاندھی کی ‏ہندی (یا ہندستانی) کو دے دی جائے۔ اور اس میں انہیں کامیابی ہو جائےگی کیونکہ آج کل اخباروں کی چیخ پکار اور ارکان اسمبلی کے سوالات ‏بڑی وقعت رکھتے ہیں۔ اردو داں طبقہ کو اپنے اخباروں کی خبر لینی چاہیے اور انہیں زیادہ بہتر اور باوقعت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ‏زمانے میں یہ بہت بڑی قوت ہے۔ ‏ہرشخص کو اور ہر قوم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی زبان کی اشاعت و ترقی کے لیے ہر جائز ذریعہ کو استعمال کرے اور جہاں تک اس کی قدرت میں ‏ہو، اس کی بہتری کے لیے کوشش کرے لیکن کسی فرد یاجماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان کی محبت یا جنون میں دوسری ‏زبانوں کی تخریب کے درپے ہواور وفد لے کر والیان ریاست کی خدمت میں حاضر ہو اور اصرار کرے کہ وہ اپنے علاقوں سے اردو زبان کو ‏خارج کرکے ہندی داخل کر لیں۔ اردوداں طبقہ کبھی اس کا مرتکب نہیں ہوا۔ ہم کسی زبان کے مخالف نہیں، البتہ اپنی زبان کی ترقی کے ‏خواہاں ہیں اور اس معاملے میں کامل رواداری اور آزادی کے قائل ہیں۔ ‏اسی ضمن میں رسم خط کا مسئلہ بھی آ جاتا ہے۔ آج کل اس پر بڑی پرزور بحثیں ہو رہی ہیں جن میں سے بعض دل چسپ اور کارآمد ہیں۔ لیکن ‏یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی تان اردو رسم خط ہی پر کیوں توڑی جاتی ہے۔ یہ مسئلہ ہندستان کے تمام رسوم خط سے متعلق ہے، جہاں متعدد ‏اور مختلف تحریر کے طریقے رائج ہیں، خصوصاً جنوبی ہند میں، جس کا تعلق نہ اردو رسم خط سے ہے نہ دیوناگری سے۔ ہندستان کی تمام زبانوں ‏کے لیے کسی ایک رسم خط کا ہونا ممکن تو ہے لیکن اس کا عمل میں آنا بہت دشوار ہے۔ مثالاً میں آپ کو ایک پرلطف لطیفہ سناتا ہوں۔ ‏مسٹر ہری کول ٹائپ حروف اور اس کی طباعت کے بڑے ماہر ہیں۔ انہوں نے حال میں بنگالی اور ہندی کا ٹائپ تیار کیا ہے۔ جو بہت قابل قدر ‏ایجاد ہے۔ انہوں نے رسالہ ’’وشال بھارت‘‘ کلکتہ میں دیوناگری رسم خط کی تائید میں ایک مفصل مقالہ لکھا ہے جس کے ضمن میں انہوں ‏نے یہ بحث کی ہے کہ مسلمان جو یہ کہتے ہیں کہ دیوناگری رسم خط اختیار کرنے سے ان کے کلچر کو صدمہ پہنچےگا، یہ بالکل غلط خیال ہے۔ رسم ‏خط کو کلچر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بحث کرتے کرتے وہ رومن رسم خط پر آتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ رومن رسم خط اختیار کرنے سے ہندو ‏تہذیب اور کلچر کو سخت نقصان پہنچےگا۔ کیا عجیب بات اور کیسی عجیب منطق ہے۔ میں قابل مقالہ نویس کو ’’حافظہ نباشد‘‘ کا الزام نہیں ‏دیتا لیکن اتنا ضرور عرض کرتا ہوں کہ دلوں کی تہوں میں جو بات چھپی ہوئی تھی، اس کا راز کس سادہ لوحی سے طشت ازبام ہو گیا۔ جب تک ‏اس خیال اور دماغ کے لوگ ہم میں موجود ہیں (خواہ وہ کسی طبقے یا فرقے کے ہوں) اس وقت تک ملک کی ساری زبانوں کے لیے کسی ایک ‏رسم خط کا ہونا محال ہے۔ ‏رہا اردو رسم خط تو یہ آج کا نہیں ہے۔ جب سے یہ زبان پیدا ہوئی یہ اس کے ساتھ ہے اور یہ زبان جیسا کہ معلوم ہے اور ظاہر ہے ٹھیٹ ملکی ‏زبان ہے۔ ہندو مسلمانوں کی مشترکہ ملک ہے، دونوں کو ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور یہ رسم خط بھی اسی کے ساتھ آیا ہے ‏جسے دونوں یکساں طور پر استعمال کرتے رہے اور کرتے ہیں۔ اس میں ایک کو دوسرے سے شکایت کا موقع ہی نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ‏ایک وقت ایسا آئے کہ جب ہندستان کی سب زبانوں کا رسم خط ایک ہو جائے لیکن اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب آئےگا اور اس کی کیا ‏صورت ہوگی۔ البتہ یہ میں مانتا ہوں کہ فی الحال اصلاح رسم خط کا مسئلہ قابل غور اور نہایت ضروری ہے۔ ‏دنیا کا کوئی رسم خط کامل نہیں اور ہم بھی یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ ہمارا رسم خط بے عیب ہے۔ ہر زندہ زبان اور زندہ شے میں تغیر و تبدل اور ‏اصلاح کا ہونا لازم ہے۔ البتہ مردے میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ نمو کا اس میں امکان ہی نہیں۔ اگر ہم اپنے رسم خط ‏کا سراغ لگاتے لگاتے اس ابتدائی صورت تک پہنچیں جہاں سے اس نے آگے بڑھنا شروع کیا اور پھر اس طرف سے چلیں اور ہر قرن اور ہر عہد ‏کے رسم خط کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ رفتہ رفتہ ہر عہد میں تغیر ہوتا گیا ہے اور جب ہم موجودہ رسم خط تک پہنچیں گے اور اس کا مقابلہ ابتدائی ‏صورت سے کریں گے تو زمین آسمان کا فرق معلوم ہوگا۔ ‏آپ دور کیوں جائیں۔ خود اردو رسم خط کو دیکھیے۔ کیا یہ ابتدا سے اب تک اسی ایک حالت میں ہے؟ پرانی تحریریں دیکھیے، سو ڈیڑھ سو برس ‏بلکہ تیس چالیس برس پہلے کی چھپی ہوئی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔ کیا اس وقت سے اب تک کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہوا؟ یہ فرق کیوں ‏ہوا اور کس نے پیدا کیا؟ زمانے کے حالات اور خود ہماری ضرورتوں نے۔ ہمیں اصلاح سے کبھی منہ موڑنا نہیں چاہیے اور اس کے لیے ہر ‏وقت تیار رہنا چاہیے۔ ‏چنانچہ ہندی والوں نے بھی جنہیں اپنے رسم خط کے کامل ہونے کا دعویٰ تھا، اس بات کو محسوس کیا اور ہندی سمیلن نے ایک خاص کمیٹی اس ‏غرض سے مقرر کی ہے کہ وہ غوروفکر کے بعد مناسب اصلاحیں تجویز کرکے پیش کرے۔ اسی طرح ڈاکٹر رابندرا ناتھ ٹیگور کی تحریک پر کلکتہ ‏یونیورسٹی نے ایک کمیٹی کا اسی مقصد سے تقرر کیا ہے کہ وہ بنگالی رسم خط پر غور کرکے ضروری اصلاحیں تجویز کرے۔ میں اس وقت اس ‏مسئلہ پر تفصیل سے بحث کرنا نہیں چاہتا کیونکہ قریب زمانے میں انجمن ترقیٔ اردو منتخب اصحاب کی ایک کانفرنس کرنے والی ہے، جس میں ‏اردو زبان کی اصلاح اور ترقی واشاعت کے متعلق متعدد تجاویز پیش کی جائیں گی۔ اسی میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آئےگا۔ ‏بعض صاحبوں نے اس مسئلہ پر بہت غوروخوض کیا ہے اور کافی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انجمن حمایت اسلام بھی اپنے ‏نمائندے بھیج کر اس کانفرنس میں شریک ہوگی۔ بہرحال ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہمیں اپنی زبان کی اشاعت منظور ہے تو ہمیں ‏ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی زبان ایک ہی حالت میں ایک جگہ کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اسے زمانے کے ساتھ ‏آگے بڑھنا چاہیے ورنہ اس کی قسمت میں فنا ہونا لکھا ہے۔ ‏اس وقت زبان کی اشاعت کے تین عا م ذریعے ہو سکتے ہیں۔ ایک اخبارات کا، جن کا پیام گھر گھر پہنچتاہے، جن کے خیالات حتی کہ ان کے ‏الفاظ اور جملے چند ہی روز میں زبان زد خاص وعام ہو جاتے ہیں۔ دوسرا ذریعہ عام ابتدائی تعلیم ہے۔ یہ ان تعلیمی کانفرنسوں کا کام ہے جو ہر ‏صوبے میں قائم ہیں۔ بجائے فضول قصیدہ خوانی اور ٹھنک ٹھنک کر اشعار پڑھنے اور لہک لہک کر وعظ کہنے کے ان کانفرنسوں کا خاص کام یہ ‏ہونا چاہیے کہ وہ قصبے قصبے اور گانو گانو میں ابتدائی مدارس کے سلسلے قائم کر دیں۔ انہیں چھوٹے چھوٹے مدارس میں ہماری قومی زبان کی ‏نشوونما اور قومی بہبودی کی بنیاد پڑےگی۔ جب تک تعلیم عام نہ ہوگی، اس وقت تک نہ آپ کے اخبار کام آئیں گے اور نہ آپ کی کتابیں زیادہ ‏مقبول ہوں گی۔ تیسرا ذریعہ سنیما ہے۔ لہوولعب سمجھ کر اس سے بے التفاتی کرنا درست نہ ہوگا۔ ہمارے اخبار اور کتابیں وہیں کام آ سکتی ہیں ‏جہاں پہلے سے تعلیم موجود ہے لیکن فلم وہاں بھی کار آمد ہو سکتا ہے جہاں تعلیم مفقود ہے۔ اول اول سنیما کو رونق دینے والی ہماری ہی زبان ‏تھی لیکن بعد میں بعض وجوہ کی بناپر جن سے میں بحث نہیں کرنا چاہتا اور جس میں ہمارا بھی قصور ہے، اس کا رخ دوسری طرف پھر گیا۔ اب ‏بھی وقت ہے کہ ہم اس کی طرف توجہ کریں۔ ہمارا فرض ہے کہ زمانے کے حالات کو دیکھ کر ہر ایسے ذریعے سے کام لیں جو ہماری زبان کی ‏اشاعت کے لیے مفید ہو۔ ‏حضرات! یہ وقت ہماری زبان پر بہت نازک ہے کچھ مشکلات اندرونی ہیں اور کچھ بیرونی۔ اس سے ہماری ذمہ داری بہت کٹھن ہو جاتی ‏ہے۔ اس ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لیے ہمیں ہر قسم کی جوکھم جھیلنے اور ضرورت کے وقت ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے آمادہ رہنا ‏چاہیے۔ اور کچھ نہیں تو ہر پڑھے لکھے کو یہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ ہر سال اور یہ نہ ہو سکے تو پانچ سال یا دس سال میں یایہ بھی ممکن نہ ہو تو عمر ‏بھر میں کم سے کم ایک شخص کو اردو لکھنا پڑھنا سکھا دےگا۔ اگر ہم دل پر رکھ لیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس کے نتائج عظیم الشان ‏ہوں گے۔ ‏زبان کا کوئی رنگ روپ (ورن) نہیں۔ اس کی کوئی ذات نہیں، اس کی کوئی قومیت نہیں، اس کا کوئی مذہب اور وطن نہیں؛ جواسے بولے، ‏لکھے پڑھے اور استعمال کرےگا، اسی کی وہ زبان ہوگی۔ اگر آپ کی زبان میں یہ خواص ہیں اور ساتھ ہی اس میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی ‏صلاحیت ہے تو یہی ہندستان کی زبان ہوکے رہےگی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.