اردوئے معلیٰ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اردوئے معلیٰ
by صفی لکھنوی

اپنے منہ سے کہہ رہی ہے صاف اردو کی زباں
مولد و ماویٰ ہے میرا کشور ہندوستاں
اس کے افعال و روابط دے رہے ہیں خود نشاں
کس طرح پیدا ہوئی کیوں کر بڑھی پل کر یہاں
روز افزوں حسن کا ہر دور اک سیارہ ہے
ہے دبستاں لکھنؤ دلی اگر گہوارہ ہے

مدتوں سرکار دہلی میں رہی یہ باریاب
اب تک اردوئے معلیٰ ہے وہی شاہی خطاب
دور دورہ لکھنؤ میں بھی تھا قبل از انقلاب
کر لیا تھا نکتہ سنجوں نے اسی کو انتخاب
ہر ادا شیریں مذاق پارسا و رند میں
اس کا طوطی بولتا تھا سبزہ زار ہند میں

تجربے کی آنکھ سے دیکھا جو اس کو ہونہار
کمپنی نے کر لیا اپنا شریک کاروبار
دفتروں میں محکموں میں بڑھ گیا عضو وقار
جم گیا چلتے ہوئے سکوں پہ نقش اعتبار
جب کوئین وکٹوریہ کی یہ سہیلی ہو گئی
ہر زباں دنیا میں اس کی پھر تو چیلی ہو گئی

فارسی ہندی کی آمیزش سے ہے اس کا وجود
یادگار اتحاد اہل اسلام و ہنود
دھوپ چھاں کے رنگ کی ہے وہ قبائے ہست و بود
کارگاہ ہند سے منسوب جس کے تار و پود
سفت و سنگیں یا لباس عاریت باریک ہے
جامہ زیبی سے قد موزوں پر اس کے ٹھیک ہے

تھی مہ نو رفتہ رفتہ ماہ کامل بن گئی
شاعرانہ محفلوں میں شمع محفل بن گئی
حسن فطرت کی ادا فہمی کے قابل بن گئی
جب زباں کی تیز نشتر سے رگ دل بن گئی
کیا قیامت ہے کہ دل پر کچھ اثر لیتے نہیں
ہو رہا ہے خون اس کا تم خبر لیتے نہیں

کھینچ دو اٹھ کر قواعد سے حصار عافیت
مل کے سب تیار کر دو جامع و مانع لغت
دیکھتے ہو آئے دن جو ہو رہی ہے اس کی گت
اک عمارت ہے ہوا پر ہو معلق جس کی چھت
اس طرح علمی ستونوں پر اسے قائم کرو
زلزلہ کیسا ہی سخت آئے مگر جنبش نہ ہو

ہر زباں کا لفظ کھپ جائے یہ وسعت اس میں ہے
ہر لغت کے جذب کر لینے کی طاقت اس میں ہے
برج بھاشا میں ہے جو لذت وہ لذت اس میں ہے
صاف قند فارسی کی بھی حلاوت اس میں ہے
راس جز شیر و شکر کوئی نہیں اس کو خورش
دو زبانیں چوس کر پائی ہے اس نے پرورش

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse