ارتقا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ارتقا
by میراجی

قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
یہ دیکھتے کیا ہو کام میرا نہیں تمہارا یہ کام ہے آج اور کل کا
تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو
نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے
مگر یوں ہی سوچ میں جو ڈوبے تو کچھ نہ ہوگا
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
چلو جنازوں کو اب اٹھاؤ
یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک اٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو

یہ راستا کب ہے اک لحد ہے
لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو
تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہوگے
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
لحد کھلی ہے
لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی کا منہ کھلا ہوا ہو
مگر کوئی تازہ اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اس کے
اندر نہ جانے پائے
کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو
اٹھاؤ جلدی اٹھاؤ آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے رکھے
ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ

لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کر کے آؤ
اگر یہ مردے لحد کے اندر گئے تو شاید
تمہاری مردہ حیات بھی آج جاگ اٹھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse