ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے
by حفیظ جونپوری

ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے
ہوئی دل کی دل کو خبر ہوتے ہوتے

بڑھی چاہ دونوں طرف بڑھتے بڑھتے
محبت ہوئی اس قدر ہوتے ہوتے

ترا راستہ شام سے تکتے تکتے
مری آس ٹوٹی سحر ہوتے ہوتے

کئے جا ابھی مشق فریاد بلبل
کہ ہوتا ہے پیدا اثر ہوتے ہوتے

نہ سنبھلا محبت کا بیمار آخر
گئی جان درد جگر ہوتے ہوتے

سر شام ہی جب ہے یہ دل کی حالت
تو کیا کیا نہ ہوگا سحر ہوتے ہوتے

زمانے میں ان کے سخن کا ہے شہرہ
حفیظؔ اب ہوئے نامور ہوتے ہوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse