ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
by مصطفٰی خان شیفتہ

ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
فلک کو مجھ سے کیوں پرخاش و کیں ہے

نہ دیکھا اپنے بسمل کا تماشا
قریب آ کر وہ کتنا دوربیں ہے

یہ اچھا ہے تو اچھا غیر کو بھی
ستاؤ اور پوچھو کیوں غمیں ہے

ہمیں صورت دکھائے کیا تمنا
کہ عاشق جس کے ہیں پردہ نشیں ہے

یہ مجھ سے شکوہ ہے اللہ رے شوخی
کہ میرے غم سے تو اندوہ گیں ہے

یہ کیسا تفرقہ ہجراں نے ڈالا
کہیں کیا ہم کہیں ہیں دل کہیں ہے

نہ پوچھو شیفتہؔ کا حال صاحب
یہ حالت ہے کہ اپنے میں نہیں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse