ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
by داغ دہلوی

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
کن انکھیوں سے اس کو مگر دیکھ لینا

فقط نبض سے حال ظاہر نہ ہوگا
مرا دل بھی اے چارہ گر دیکھ لینا

کبھی ذکر دیدار آیا تو بولے
قیامت سے بھی پیشتر دیکھ لینا

نہ دینا خط شوق گھبرا کے پہلے
محل موقع اے نامہ بر دیکھ لینا

کہیں ایسے بگڑے سنورتے بھی دیکھے
نہ آئیں گے وہ راہ پر دیکھ لینا

تغافل میں شوخی نرالی ادا تھی
غضب تھا وہ منہ پھیر کر دیکھ لینا

شب وعدہ اپنا یہی مشغلہ تھا
اٹھا کر نظر سوئے در دیکھ لینا

بلایا جو غیروں کو دعوت میں تم نے
مجھے پیشتر اپنے گھر دیکھ لینا

محبت کے بازار میں اور کیا ہے
کوئی دل دکھائے اگر دیکھ لینا

مرے سامنے غیر سے بھی اشارے
ادھر بھی ادھر دیکھ کر دیکھ لینا

نہ ہو نازک اتنا بھی مشاطہ کوئی
دہن دیکھ لینا کمر دیکھ لینا

نہیں رکھنے دیتے جہاں پاؤں ہم کو
اسی آستانے پہ سر دیکھ لینا

تماشائے عالم کی فرصت ہے کس کو
غنیمت ہے بس اک نظر دیکھ لینا

دیے جاتے ہیں آج کچھ لکھ کے تم کو
اسے وقت فرصت مگر دیکھ لینا

ہمیں جان دیں گے ہمیں مر مٹیں گے
ہمیں تم کسی وقت پر دیکھ لینا

جلایا تو ہے داغؔ کے دل کو تم نے
مگر اس کا ہوگا اثر دیکھ لینا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse