ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
by حفیظ جونپوری

ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے ان حسن والوں کی

بجائے رقص مے خانے میں ہے گردش پیالوں کی
تکلف بر طرف یہ بزم ہے اللہ والوں کی

نشاں جب مٹ گیا تربت کا آئے فاتحہ پڑھنے
انہیں کب یاد آئی ہیں وفائیں مرنے والوں کی

ہوا دو گز کفن منعم کو حاصل مال دنیا سے
بندھی رکھی ہی آخر رہ گئی گٹھری دوشالوں کی

دکھا کر دل مرا پھر آپ ہی عذر جفا کرنا
ارے کافر تری اک چال ہے یہ لاکھ چالوں کی

ابھی تم کو بہت کچھ ناز ہے ترچھی نگاہوں پر
مگر دیکھی نہیں تاثیر تم نے میرے نالوں کی

ترے ہوتے ہوئے یہ بات غیرت کی ہے او ظالم
اڑائے آسماں یوں خاک تیری پائمالوں کی

بھلے ہیں یا برے جو کچھ ہیں بندے تو خدا کے ہیں
ندامت اس قدر واعظ نہ کر مے خانے والوں کی

ہوئی بوچھار مجھ پر شکوۂ بے جا کی پھر کیا کیا
جہاں چھیڑا انہیں بس کھل گئی گٹھری ملالوں کی

گنہ گار محبت ہیں جدھر گزریں گے محشر میں
ہمارے ساتھ ساتھ اک بھیڑ ہوگی خوش جمالوں کی

فرشتوں سے حفیظؔ اک دن لحد میں گفتگو ہوگی
ابھی سے فکر لازم ہے تمہیں ان کے سوالوں کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse