ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
by عزیز الحسن غوری

ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا

سب ایک رنگ میں ہیں مے کدے کے خورد و کلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا

قمار عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امید نفع میں خوف زیاں نہیں ہوتا

سہم رہا ہوں میں اے اہل قبر بتلا دو
زمیں تلے تو کوئی آسماں نہیں ہوتا

وہ محتسب ہو کہ واعظ وہ فلسفی ہو کہ شیخ
کسی سے بند ترا راز داں نہیں ہوتا

وہ سب کے سامنے اس سادگی سے بیٹھے ہیں
کہ دل چرانے کا ان پر گماں نہیں ہوتا

جو آپ چاہیں کہ لے لیں کسی کا مفت میں دل
تو یہ معاملہ یوں مہرباں نہیں ہوتا

جہاں فریب ہو مجذوبؔ یہ تری صورت
بتوں کے عشق کا تجھ پر گماں نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse