ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
by فانی بدایونی

ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے

الٰہی کیوں نہیں ہوتی کوئی بلا نازل
اثر ہے دیر سے دست دعا اٹھائے ہوئے

تری لگائی ہوئی آگ حشر تک نہ بجھی
ہوئے نہ مر کے بھی ٹھنڈے ترے جلائے ہوئے

بلائے جاں ہے مگر پھر بھی آرزو ہے تری
ہم اس کو اپنے کلیجے سے ہیں لگائے ہوئے

سحر ہوئی کہ وہ یادش بخیر آتا ہے
چراغ ہیں مری تربت کے جھلملائے ہوئے

تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا
مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے

کسی کا ہائے وہ مقتل میں اس طرح آنا
نظر بچائے ہوئے آستیں چڑھائے ہوئے

اجل کو مژدۂ فرصت کہ آج فانیؔ زار
امید وصل سے بیٹھا ہے لو لگائے ہوئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse