ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
by جلیل مانکپوری

ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی

غضب تھا ان کا تلون کہ چار ہی دن میں
نگاہ لطف نگاہ عتاب ہو کے رہی

تری گلی کی ہوا دل کو راس کیا آتی
ہوا یہ حال کہ مٹی خراب ہو کے رہی

وہ آہ دل جسے سن سن کے آپ ہنستے تھے
خدنگ ناز کا آخر جواب ہو کے رہی

پڑی تھی کشت تمنا جو خشک مدت سے
رہین منت چشم پر آب ہو کے رہی

ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی

کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو
اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی

وہ بزم عیش جو رہتی تھی گرم راتوں کو
فسانہ ہو کے رہی ایک خواب ہو کے رہی

جلیلؔ فصل بہاری کی دیکھیے تاثیر
گری جو بوند گھٹا سے شراب ہو کے رہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse