ادائیں ہیں جو اس رشک پری میں
Appearance
ادائیں ہیں جو اس رشک پری میں
نہ ڈھونڈے سے ملیں گی وہ کسی میں
نہ دیکھی وہ کسی کی دشمنی میں
جو آفت ہے تمہاری دوستی میں
تغافل کس قدر ہمت شکن ہے
نہیں ہے اب کوئی ارمان جی میں
تڑپتے ہیں ہزاروں کشتۂ غم
قیامت ہے بپا تیری گلی میں
بناوٹ میں وہ کیفیت کہاں ہے
مزا ہے جو تمہاری سادگی میں
وہ کب سننے لگے ہیں شکوۂ غم
خفا ہو جاتے ہیں جو دل لگی میں
جدا جب سے ہوئے ہو تم مری جاں
کمی کچھ آ گئی ہے زندگی میں
وہی دل کو بچا سکتا ہے غم سے
کبھی جو خوش نہیں ہوتا خوشی میں
بچانا ہر بلا سے اے خدا تو
ترا ہی آسرا ہے بے کسی میں
جو دل میں بس رہا ہے کون ہے وہ
کسے معلوم ہے یہ بے خودی میں
تمہیں کو چھینتی ہے مجھ سے دنیا
ملے تھے ایک تم ہی زندگی میں
نہ بھولے گی یہ سیر باغ ہاجرؔ
کسی کو ساتھ لے کر چاندنی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |