احسان ترا دل مرا کیا یاد کرے گا
Appearance
احسان ترا دل مرا کیا یاد کرے گا
جو خاک کو اس کی نہ تو برباد کرے گا
نے حسرت گل گشت نہ پرواز کی طاقت
صدقے میں ترے کیا مجھے آزاد کرے گا
موجود ہوں حاضر ہوں میں راضی ہوں میں خوش ہوں
سر پر مرے جو کچھ کہ وہ جلاد کرے گا
جز غم کے نہ حاصل ہوا صحبت میں کسو کی
اس دل کو الٰہی کوئی بھی شاد کرے گا
سودا نہ گیا اس کا طبیبوں کی دوا سے
تو آ کے علاج اب کوئی فصاد کرے گا
جو اس میں بھی چنگا نہ ہوا تو کوئی دن میں
جا خانۂ زنجیر کو آباد کرے گا
اس کی جو کمر ہووے تو کھینچے کوئی حاتمؔ
کیا اپنا سر آ کر یہاں بہزاد کرے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |