اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں
by بیخود موہانی

اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں
کہ ہستی کا فسانہ ہوں عدم کی داستاں ہوں میں

زمیں والے جو کہتے ہیں کہ اب کیا پیس ڈالے گا
تو ملتا ہے جواب اس کا کہ دور آسماں ہوں میں

میں سمجھاتا ہوں جب دل کو تو کہتا ہے متانت سے
زمانے کی زباں تو ہے حقیقت کی زباں ہوں میں

مری تصویر میرا بت مرا مرقد ہے تن میرا
کبھی تھا تو اسی دنیا میں لیکن اب کہاں ہوں میں

تری غیرت کو اے ناز ستم گر کیا ہوا آخر
ترے ہوتے ہوئے ممنون جور آسماں ہوں میں

قیامت کر گیا بار امانت کا اٹھا لینا
حریف ماسوا ہوں مبتلائے امتحاں ہوں میں

نہ جب اٹھا تھا دل دنیا سے ذرہ ذرہ دل کش تھا
مگر اب آشیاں ہر جا ہے پر بے آشیاں ہوں میں

نظر آتا ہے ہر منبر پہ مجھ کو اک نیا واعظ
جہاں رندوں کا مجمع ہو وہاں پیر مغاں ہوں میں

مری قسمت میں اے بیخودؔ کہاں منزل کی آسائش
غبار راہ ہوں بانگ درائے کارواں ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse