اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں
اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں
کہ ہستی کا فسانہ ہوں عدم کی داستاں ہوں میں
زمیں والے جو کہتے ہیں کہ اب کیا پیس ڈالے گا
تو ملتا ہے جواب اس کا کہ دور آسماں ہوں میں
میں سمجھاتا ہوں جب دل کو تو کہتا ہے متانت سے
زمانے کی زباں تو ہے حقیقت کی زباں ہوں میں
مری تصویر میرا بت مرا مرقد ہے تن میرا
کبھی تھا تو اسی دنیا میں لیکن اب کہاں ہوں میں
تری غیرت کو اے ناز ستم گر کیا ہوا آخر
ترے ہوتے ہوئے ممنون جور آسماں ہوں میں
قیامت کر گیا بار امانت کا اٹھا لینا
حریف ماسوا ہوں مبتلائے امتحاں ہوں میں
نہ جب اٹھا تھا دل دنیا سے ذرہ ذرہ دل کش تھا
مگر اب آشیاں ہر جا ہے پر بے آشیاں ہوں میں
نظر آتا ہے ہر منبر پہ مجھ کو اک نیا واعظ
جہاں رندوں کا مجمع ہو وہاں پیر مغاں ہوں میں
مری قسمت میں اے بیخودؔ کہاں منزل کی آسائش
غبار راہ ہوں بانگ درائے کارواں ہوں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |