اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
by سیماب اکبرآبادی

اجازت دے کہ اپنی داستان غم بیاں کر لیں
ترے احساس اور اپنی زباں کا امتحاں کر لیں

حیات جاوداں بھی عشق میں برباد کر لیں گے
متاع ہستی فانی تو پہلے رائیگاں کر لیں

یہ سازش کر رہے ہیں چند تنکے آشیانے کے
کہ بجلی کو کسی صورت اسیر آشیاں کر لیں

شب غم اے تصور ان کو مجبور تبسم کر
مرتب اس اجالے میں ہم اپنی داستاں کر لیں

ٹھکانا ہو کہاں سیمابؔ پھر ناز آفرینی کا
اگر ہم اپنے دل کو بے نیاز دو جہاں کر لیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.