اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
by شبلی نعمانی

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا

بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا

وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سہی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہوگی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا

یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse