اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
by مومن خان مومن

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم بر خصم جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دست عاشق رسا نہیں ہوتا

چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا

کیوں سنے عرض مضطر اے مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse