اثرؔ کیجئے کیا کدھر جائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اثرؔ کیجئے کیا کدھر جائیے
by میر اثر

اثرؔ کیجئے کیا کدھر جائیے
مگر آپ ہی سے گزر جائیے

کبھو دوستی ہے کبھو دشمنی
تری کون سی بات پر جائیے

مرا دل مرے ہاتھ سے لیجئے اور
ستم ہے مجھی سے مکر جائیے

کَے روز کی زندگانی ہے یاں
بنے جس طرح زیست کر جائیے

اثرؔ ان سلوکوں پہ کیا لطف ہے
پھر اس بے مروت کے گھر جائیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse