اتنے تو ہم خیال دل مبتلا ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اتنے تو ہم خیال دل مبتلا ہیں ہم
by صفی اورنگ آبادی

اتنے تو ہم خیال دل مبتلا ہیں ہم
کل جس سے خوش تھے آج اسی سے خفا ہیں ہم

تجھ سے جدا نہیں ہیں جو تجھ سے جدا ہیں ہم
تیرے ہی ہیں اگرچہ ترے نقش پا ہیں ہم

کہتے ہیں ہم کو نیک بھی بد بھی ہزار ہا
اس کی خبر نہیں ہے کہ دراصل کیا ہیں ہم

رتبہ بڑھا دیا ہے جنون فراق نے
ہم سے جدا ہیں آپ تو سب سے جدا ہیں ہم

تاثیر اشک و آہ نے بدلا نہیں مزاج
مدت ہوئی کہ شاکیٔ آب و ہوا ہیں ہم

لاکھوں جفائیں سہہ کے اب آیا ہے یہ خیال
ملتے ہی کیوں ہیں اس سے جو بے مدعا ہیں ہم

وہ یاس بن گئی جو زمانے کی آس تھی
آزردہ آج اپنے سے بے انتہا ہیں ہم

جمتا ہے اپنے ذکر سے اب محفلوں کا رنگ
رہتے ہیں اپنے گھر میں مگر جا بجا ہیں ہم

کیا کیا عنایتیں ہیں بس اے چرخ پیر بس
تیرا تصدق اب بھی کسی سے جدا ہیں ہم

اب اتفاق اہل وفا تم کو کیا دکھائیں
محشر میں دیکھنا کہ یہ سب ایک جا ہیں

منظور امتحان دل عشق باز ہے
اب اپنے واسطے بھی تو صبر آزما ہیں ہم

اس پر مٹے ہوئے ہیں مٹاتا ہے جو صفیؔ
دشمن کی گا رہے ہیں بڑے خوش نوا ہیں ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse