Jump to content

اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی

From Wikisource
اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
by مضطر خیرآبادی
308578اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلیمضطر خیرآبادی

اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
تم تو ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی

رسم عشق غیر اور میں یہ بھی خوب
ایسی کہتے ہو کہ بس توبہ بھلی

میری مے نوشی پہ ساقی کہہ اٹھا
اتنی پیتے ہو کہ بس توبہ بھلی

وقت آخر اور یہ قول وفا
دم وہ دیتے ہو کہ بس توبہ بھلی

غیر کی بات اپنے اوپر لے گئے
ایسی سمجھے ہو کہ بس توبہ بھلی

میں بھی ایسا ہوں کہ خالق کی پناہ
تم بھی ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی

کہتے ہیں مضطرؔ وہ مجھ کو دیکھ کر
یوں تڑپتے ہو کہ بس توبہ بھلی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.