اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
by میر حسن دہلوی

اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے

دم بدم مجھ کو تصور ہے اسی دلبر کا
رات دن پھرتا ہے میری وہ نظر کے آگے

ہیں یہ اے جان مرے دل سے مجھے اپنے عزیز
تیرے داغوں کو میں رکھتا ہوں جگر کے آگے

گرمی اپنی کو فراموش کریں مہر وشاں
سرد ہو جائیں سب اس رشک قمر کے آگے

باد تندی سے میاں تیری مجھے حیرت ہے
کیونکہ رکھتا ہے طپانچوں کو کمر کے آگے

تیرے دانتوں سے میں تشبیہ نہ دوں گوہر کو
پوت کو قدر نہیں سلک گہر کے آگے

زور سے کام نکلتا نہیں بے زر کے دئے
زر بھی حربہ ہے ترا ایک بشر کے آگے

زر اگر برسر فولاد نہیں نرم شود
زور کا زور دھرا رہتا ہے زر کے آگے

کس کو کہتا ہے میاں یاں سے سرک یاں سے سرک
کوئی بیٹھا نہیں آ کر ترے در کے آگے

یہ تو مجلس ہے جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
کیوں جگہ بدلے کوئی کاہے کو سرکے آگے

اب کہاں جائے حسنؔ ہاتھوں سے تیرے ظالم
رکھ لیا تو نے اسے تیغ و سپر کے آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse