اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
by آسی غازی پوری

اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا

شان کرم تھی یہ بھی اگر وہ جدا ہوا
کیا محنت طلب میں نہ حاصل مزا ہوا

میں اور کوئے عشق مرے اور یہ نصیب
ذوق فنا خضر کی طرح رہ نما ہوا

پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے
کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا

شایان درگزر ہے اگر اضطرار میں
جرم دراز دستی ذوق دعا ہوا

کیا کیا نہ اس نے پورے کئے مدعائے دل
لیکن پسند اسے دل بے مدعا ہوا

اس کا پتہ کسی سے نہ پوچھو بڑھے چلو
فتنہ کسی گلی میں تو ہوگا اٹھا ہوا

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

پیچیدہ تھی جو سر میں ہوائے رضائے دوست
آسیؔ مرید سلسلۂ مرتضیٰ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse