اتش حسن بھری ہے تیرے رخساروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اتش حسن بھری ہے تیرے رخساروں میں
by بوم میرٹھی

اتش حسن بھری ہے تیرے رخساروں میں
کون منہ مارے دہکتے ہوئے انگاروں میں

طالب دید کو جب دید کا موقع نہ ملا
لاکھوں سوراخ کئے یار کی دیواروں میں

آج کیا تو نے عیادت کا کیا ہے وعدہ
کھلبلی آج مچی ہے تیرے بیماروں میں

سینکڑوں بوتلیں اور بیسیوں ساغر ٹوٹے
ہاتھا پائی جو ذرا ہو گئی مے خواروں میں

غیر سے آج ہوئی نوچا کھسوٹی تیری
داغ جو نیلے پڑے ہیں تیرے رخساروں میں

باد ابرو سے شب ہجر کو کاٹا ہم نے
یہ بھی چلتا ہوا ہتھیار ہے ہتھیاروں میں

کہیں ہو جائے اسے بردہ فروشی میں سزا
غیر اس بت کو لئے پھرتا ہے بازاروں میں

ہم کو بھی حسن ملاحت کا مزہ چکھوا دو
ہم بھی ہیں آپ کے مدت سے طلب گاروں میں

بوم صاحب کا عجب رنگ نرالا دیکھا
یار یاروں میں ہے اغیار ہے اغیاروں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse