اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
by ریاض خیرآبادی

اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
طاق حرم سے شیخ وہ بوتل اٹھا تو لا

لیلیٰ کے دل میں قیس نکل آئے گی جگہ
تو سر پر آج نجد کا جنگل اٹھا تو لا

دھونا ہے داغ جامۂ احرام صبح صبح
حجرے سے شیخ پانی کی چھاگل اٹھا تو لا

مجھ کو بھی انتظار تھا ابر آئے تو پیوں
ساقی اگر یہ سچ ہے کہ بادل اٹھا تو لا

وہ حسن وضع دیکھیں گے کیوں کر جڑے ہیں دل
زر گر نئی بنی ہے جو ہیکل اٹھا تو لا

طاق حرم میں شیخ گلابی ہے پھول سی
اس کام کا ملے گا تجھے پھل اٹھا تو لا

بن جائے دن یہ تیرہ شب ہجر اے ندیم
روشن تھا جس سے طور وہ مشعل اٹھا تو لا

میں کام لوں گا ابر کا اے رند تان کر
تو مجھ فقیر مست کا کمبل اٹھا تو لا

اے شیخ میز سے دم افطار فرش پر
پینے کو پھول کھانے کو کچھ پھل اٹھا تو لا

ناصح کا منہ ہو بند چکھا دوں شراب خلد
ساقی ذرا ریاضؔ کی بوتل اٹھا تو لا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse