اتالیق بی بی/گیارھواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

لڑکوں کی اماں ایک روز کے لیے اپنے میکے گئی تھیں۔ شوہر صاحب نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر چند احباب کو مدعو کیا۔ دعوت کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ ہدیۂ ناظرین ہے۔



رقعۂ دعوت

عیشے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند


یہ تو صاحب بڑے غضب کی بات ہے، ادھر میری آنکھ اوٹ ہوئی اور ادھر تم کھل کھیلے، ذری دیر اماں کو دیکھنے چلی گئی تھی کہ آفت آگئی۔ گھر کی صورت ہی بدل گئی، پہچان نہیں پڑتا کہ وہی گھر ہے۔ موئے بھنگیڑ خانے میں ایسی ابتری کیا ہوگی؟ کوئی چیز اپنے جگہ پر نہیں۔ جتنا اسباب ہے تتر بتر؟ یہی تو میں کہتی تھی کہ آج کیا ہے جو یہ مجھ سے کہتے ہیں کہ رات کو بھی اپنی اماں کے وہاں رہ جانا، رات کو آؤگی تو سردی میں زکام ہو جا‎ئے گا، بیمار پڑ جا‎ؤگی۔ یہ مجھ کمبخت کو کیا خبر تھی کہ یہ ارادے ہیں اور یار دوستوں کی دعوت ہوگی۔ یہ کمبخت گھر میں رہے گی تو لطف نہ آوے گا، کسی طرح اس کو دفان کرو۔ یہ تو اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ اصرار اسی وجہ سے تھا۔ اور حقے کی بو تو دیکھو، اس وقت تک گھر میں مچی ہوئی ہے، جدھر پھر کے دیکھو کولوں کا انبار ہی نظر آتا ہے اور باورچی خانہ کے باہر اللہ جھوٹ نہ بلائے کوئی سو سوا سو جلے گل پڑے ہوں گے۔ اے میں پوچھتی ہوں کتنے حقے تھے اور کتنے پینے والے موئے تھے جو اتنی تمباکو پی ڈالی؟ اور چاندنی تخت پر کل ہی بچھائی تھی، معلوم ہوتا ہے دو مہینے کی بچھی ہوئی ہے۔ اور پھر دو تین جگہ پیسے پیسے بھر جل بھی تو گئی ہے؟ یہ کیسے جلی؟ بولتے نہیں۔

“حقہ گر پڑا تھا”۔

اے لو حقہ گر پڑا تھا، آسمان نہ گر پڑا گرانے والوں موؤں پر؟ نئی چاندنی مٹیا میل کر کے رکھ دی۔ اور اے لو یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں، یہ نئے قالین کی گت؟ یہ بھی جل گیا؟ یہ کیسے جلا؟

“یہ بھی اسی حقہ سے جل گیا تھا، چنگاری پڑی رہ گئی، کسی نے دیکھا نہیں”۔

آنکھیں بھی پھوٹ گئی تھیں؟ اور آنکھ تو آنکھ میں کہتی ہوں ان نکٹوں کے منہ پر ناک بھی نہ تھی کہ غالیچہ جلا کیا اور ان کو خبر نہ ہوئی؟

“بو ہی سے تو پتہ چلا، قالین کے جلنے کا مجھے بھی افسوس ہے، مگر خیر اب تو ہو گیا”۔

اے افسوس تو تم کو گھر جل جانے کا بھی نہ ہو، یہ قالین کون بڑی چیز ہے؟ ایسا تو میں نے آج تک آدمی ہی نہیں دیکھا جس کو اپنی چیز کا درد نہ ہو، وہ کیا گھر رکھے گا۔ اور مجھے بھی ناحق ہی فکر ہے، جب تم ہی چاہتے ہو کہ گھر نہ رہے تو میری حماقت ہے جو میں اس طرح سے ایک ایک چیز سنبھال کے رکھتی ہوں۔ اب خدا چاہے تو ایسا قصور نہ ہوگا، گھر تمھارا، مال تمھارا چاہے رکھو چاہے پھینکو؟ میں بیچ میں بولنے والی کون؟ دعوت دنیا کرتی ہے مگر اس طرح گدھوں سے کھیت کوئی نہیں چرواتا۔ ابھی چوتھا روز ہے کہ شکر کی بوری آئی تھی، ایک مٹھی بھر شکر باقی ہوگی؟ یہ شکر کیا ہوئی؟

“شربت بنوایا تھا”۔

اور میری دوا کے لیے کاغذی نیبو آئے تھے وہ تو نہیں صرف کر ڈالے؟

“نہیں نیبو میں نے بازار سے منگوا‎ئے تھے”۔

یہی تو میں نے کہا بے ترشی شربت ان چٹوروں کے حلق سے کاہے کو اترتا، گھر میں چاہے گڑ کا شربت بھی نہ میسر آتا ہو مگر یہاں جب تک نیبو نہ ہو شربت ہی نہ پئیں گے۔ خدا نہ کرے ایسی دعوت کوئی کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں بھونچال آیا تھا۔ جو چیز ہے ٹوٹی پڑی ہے، ایک گلاس ٹوٹا، ایک طشتری ٹوٹی۔ سنہرے کام والی پلیٹ میں بال پڑ گیا، میں اس کے جوڑ کی تلاش میں تھی یہاں وہ بھی گئی۔

“تو اس میں بال تو پہلے ہی سے پڑا تھا”۔

اے کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ کھاؤ تو میرے سر کی قسم کہ اس میں بال پہلے ہی سے پڑا تھا۔ یہ تو سب ایک طرف، جس بات پر بدن میں آگ لگ جاتی ہے وہ تو یہ ہے کہ نقصان کا نقصان کریں اور پھر اوپر سے چالبازی۔ دالان کے طاق پر والا چینی کا کھلونا دو ٹکڑے کرکے پھر اس کو ویسے ہی جما کے رکھ دیا کہ معلوم نہ ہو۔ ایسی چھچھوری حرکتیں، چھی چھی! اس وقت تک تو اتنا ہی نقصان کھلا ہے، اب دیکھیں کل کو کون کون چیزیں ٹوٹی ہوئی نکلتی ہیں؟ خیر بھئی ہوگا، ہم سے کیا مطلب؟ جس کا مال ہے جب اس کو خیال نہیں تو ہماری جوتی رنج کرے، جو کچھ بچا ہے خدا کرے وہ بھی نہ رہے، مگر دیکھ کے تاب نہیں رہتی، نقصان سے دل کڑھتا ہے تو منہ سے نکل ہی جاتی ہے بات۔ تم کو تو ایسی کے ساتھ بیاہ کرنا تھا کہ جو گھر لٹتے بھی دیکھتی تو منہ سے نہ بولتی۔ جیسی تمھاری طبیعت لا ابالی تھی، اگر ایسی ہی وہ بھی ہوتی تو اچھا تھا۔ نہ گھر میں ستھرائی دی جاتی، نہ لڑکوں کے سر اور کپڑوں کی خبر لیتی، نہ انھیں نہلاتی دھلاتی۔ ہر چیز تتر بتر یونہی پڑی رہتی تو تمھارا جی خوش ہوتا۔ خیر جب میں مرجا‎ؤں گی تو ایسی ہی کے ساتھ بیاہ کر لینا پھر معلوم ہوگا کہ پھوہڑ اور سوگھڑ میں یہ فرق ہوتا ہے۔

آج میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ سو رہوں، لہذا میں سو رہا۔ لکچر نہ معلوم کب تک ہوتا رہا۔