اتالیق بی بی/چوتھا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“آج شام کو صرف صبح کا رکھا ہوا گوشت اور چپاتیاں دستر خوان پر آئیں، شوہر صاحب سے بغیر مٹھا‏ئی کے کھانا نہیں کھایا گیا، جس کو شکایتاً انھوں نے اپنی زوجہ سے بیان کیا، جوابات قلمبند ہوتے ہیں۔”



دال ارہر کی بے نمک پھیکی مطلقاً جس میں بو نہ تھی گھی کی


یہ آج مہینوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ تم بات بات پر ناک بھوں چڑھاتے ہو اور ہر چیز میں عیب نکالتے ہو۔ اگر تمھارے کھانے کا انتظام مجھ سے نہیں بنتا تو باورچی نوکر رکھ لو، تب تو کھانا مزہ کا ملے گا؟ عمر بھر تو کھانے کی کوئی شکایت نہیں سنی، اب آ‎ئے دن روز کے اعتراض، روز کی تیوری بھلا مجھ سے کاہے کو اٹھائی جائے گی؟ نا بابا، آج تک جس نے ایک مرتبہ میرے ہاتھ کی پکی چیز کھائی، انگلیاں چاٹا کیا۔ اور کبھی تم کو بھی تو میرے ہاتھ کی دھوئی ماش کی دال اور کباب بہت اچھے معلوم ہوتے تھے، مگر اب نہ معلوم کیا ہوگیا ہے کہ جو کام مَیں کرتی ہوں تم کو برا ہی معلوم ہوتا ہے۔ مزے سے مزے کی چیز جان کھپا کے پکا‎‌ؤ، نمک کم ہے، مرچ زیادہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مجھی سے جی ہٹ گیا ہے۔ پھر خدا ہی مجھ کو اس گھر سے اڑا‌‎ئے تو تم کو چین ملے۔

“اچھا بھئی ہوگا، قصہ مختصر کرو، دسترخوان پر ایک بات اتفاقاً میرے منہ سے نکل گئی، اب اس کا خیال ہی کیا؟ لو چپ ہو جا‎ؤ”۔

تو زبان تو بادشاہ بھی نہیں روک سکتا، تم کیسے قفل چڑھاؤگے؟ لو صاحب، یہ تو سب کچھ کہہ جائیں اور دوسرا منہ سی لے۔ ایسا حلق کا داروغہ تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو بات نہ کردے، تو بی بی کاہے کو ٹھہری لونڈی ہوئی؟ لونڈی زر خرید بھی موئی زبان رکھتی ہے۔ یہ روز کا غصہ، یہ روز کی عیب چینی کس سے سہی جائے گی؟ بغیر مٹھاس کے حلق سے لقمہ نہیں اترتا اور یہ زبان کا مزہ تو وہ ہے کہ بڑے بڑے اس میں بگڑ گئے، تمھاری اوقات ہی کیا ہے؟ اور اس نوکری کی کیا ہستی؟ ہونھ! کھیر پکاؤ تو یہ کھائیں گے، نہیں تو نہیں۔ یہ روز پلاؤ متنجن کہاں سے آوے گا، سات آدمی گھر کے، ایک ماما اندر ایک لڑکا باہر، نو آدمیوں کی روٹی، پھر اسی میں فاتحہ درود، آیند روند، فقیر فقرا، اور اوپر سے کپڑے کی ضرورتیں۔ بچت کہاں سے کروں؟ کون جتن کروں جو میاں کھیر کھائیں۔ آخر ہمارے ہی پڑوسی اور بھی ہیں، جو کچھ ملا موٹا جھوٹا کھا لیا، خدا کا شکر بھیجا۔ بچوں کو بھی اسی چٹورے پن کی عادت پڑے گی۔ اچھا سبق پڑھایا جاتا ہے ان کو۔ تین تین لڑکیاں آگے، اللہ رکھے بیاہ ہوگا، شادی ہوگی، خانہ داری، موٹا بھی، جھوٹا بھی۔ لے آپ کو تو یہ عادت کہ جب تک تر لقمہ دسترخوان پر سامنے نہ ہو ہاتھ نہ دھوئیں تو پھر بھلا ساس نندوں کے بیچ میں کیسے نباہ ہوگا؟

“خداکے لیے سونے دوگی کہ نہیں، میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ خالی گوشت تھا، اگر کچھ اور بھی پکا لیتیں تو اچھا ہوتا”۔

اورکیا پکا لیتی اپنا بھیجا؟

“وہ تو میرا پکا کرتا ہے”۔

یہ دیکھیے اب ضلع جُگت ہونے لگی، مجھ سے دل لگی نہ کرنا، نہیں تو ابھی پٹی پر سر دے ماروں گی۔ یہ دیکھیے صاحب، اول تو بات کا جواب نہیں دیتے اور پھر دیا بھی تو یہ جلے کٹے بول، یہ تو نہیں خیال کرتے کہ سینکڑوں خدا کے بندے پڑے ہیں کہ جن کو باسی گوشت بھی میسر نہیں آتا۔ آپ ہیں کہ ناشکری کرتے ہیں۔ گوشت دونوں وقت، دوسرے تیسرے قیمہ، یہ وہ، بیس چیزیں۔

“وہی قیمہ آج پکا لیا ہوتا تو اس پنیا ڈھب ڈھب شوربے سے تو اچھا ہوتا”۔

اے خدا کی شان، آپ کو حال ہی بہت معلوم ہے پکانے کا، اور جو ہڈی نکل جاتی تو بچوں کو کیسے سمجھاتی؟ اس کے علاوہ جہاں گوشت سل پر گیا طاقت نکل گئی۔ عیب نکال دینا تو بہت آسان ہے جب کرنا پڑے تو معلوم ہو۔

“معلوم کیا ہو؟ میں کہتا ہوں اچار مربہ نہ سہی، ایک ذرا سی چٹنی میں کیا خرچ ہوتا ہے، اگر پیس کر دسترخوان پر رکھ دو؟”

چٹنی میں تمھارے حسابوں کچھ لگتا ہی نہیں، یہ پودینہ تمھارے کس باغیچہ میں بویا ہے اور ادرک کس جگہ لگی ہے؟ جو میں توڑ کے چٹنی بنالوں۔ اور یہ تو دیکھیے مربہ اچار نہ سہی، جیسے میرے اوپر کوئی احسان کیا ہے، ابھی کیا ہے؟ آگے بڑھ کے باقر خانی، مزعفر سے نیچے اتر کے بات ہی نہ کریں گے۔ کتنا کہا کہ فصل میں آم منگوادو، شکر گھر میں ہے، مربہ بنالوں۔ تب تو سنا نہیں، اب مربہ مربہ پکارتے ہیں۔

“آم تو ہم نے لادیے تھے، تم نے کھٹائی بنالی، اس میں میرا کیا قصور؟”

اور اب جو میں نے کھٹائی بنالی تو کون سا گناہ کیا؟ آخر وہ بھی تو ضروری چیز تھی کہ نہیں؟

“اچھا بھئی تھی ضروری چیز، اب سونا ملے گا کہ کہیں اور جا کے پڑ رہوں؟”

پڑ کیوں نہیں رہتے؟ مجھے ایسی بڑی غرض ہی ہے آپ کی، زبان جب تک اللہ نہ بند کرے گا آدمی کے بند کیے تو نہیں بند ہوتی، دیکھیں تو کون زبان بند کرتا ہے؟

گو کہ ارادہ مصمم تھا کہ ابھی موعظۂ مونثیہ کو اور طول دیا جائے مگر نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ آخر آنکھ لگ ہی گئی۔