اتالیق بی بی/بارھواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“گھر میں ایک دور کی رشتہ کی مہمان آئی ہیں، بیوی کو بمصداق:

با سایہ ترا نمی پسندم عشق است و ہزار بدگمانی


کچھ اور وسواس ہوا ہے، دن تو خیر لڑکوں کی ماں نے کسی طرح بسر کر لیا، رات کا سماں شوہروں کی تنبیہ کے لیے قلمبند ہوتا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔”



بنتی نہیں ہے بزم میں اس کی حیا کیے بیٹھا رہا اگر چہ اشارے ہوا کیے


اللہ مجھے آنکھوں کی اندھی کانوں کی بہری پیدا کرتا تو اس سے اچھا تھا، نہ دیکھتی سنتی نہ دل کڑھتا، ان انگاروں پر زندگی بسر کرنے سے تو اچھا تھا؟ بلا سے کچھ نہ دکھائی دیتا، یہ تو نہ دیکھنا پڑتا؟ اور پھر گھر کے اندر۔ باہر کے تم مالک ہو جو جی چاہے کرو، گھر میں تو نہ کرتے۔

“یہ آج کیا نیا رنگ ہے؟”

وہی نیا رنگ ہے جو تمھارے دل میں ہے، اور کیا رنگ ہوگا؟ جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔

“مجھ کو تو کچھ نہیں معلوم، اتنا جانتا ہوں کہ جب تک رات کو تھوڑی دیر دنیا بھر کی بے سروپا باتیں نہیں کر لیتی ہو سونا نہیں ملتا، ایک رات تو ذری آرام سے پڑ رہنے دو”۔

ہائے اللہ پھر میں ہی بری، میری ہی چھاتی پر یوں کودوں دَلی جائے اور پھر میں ہی آرام نہیں لینے دیتی۔

“کچھ خیر ہے؟ یہ کہہ کس کو رہی ہو؟”

اے انھیں کو کہہ رہی ہوں جو بڑی نیک پارسا دن بھر ماموں ماموں کہتے کہتے منہ تھکاتی ہیں اور ہتھکنڈے یہ کہ بیسوا‌‎ؤں کے کان کاٹ لیے۔ خدا نہ کرے کسی کی آنکھ کا پانی یوں مر جائے۔ ایسی موئی تو پیدا ہوتے ہی مرجا‎ئے تو اچھا ہے، خاندان کا نام تو نہ ڈوبے۔ نہیں تو کسی کسبی بازاری کے گھر میں پیدا ہو۔ خدا نہ کرے کسی بہو بیٹی کے دیدے ایسے چربانک ہوں۔ اور پھر وہ دیدہ دلیری تو دیکھو کہ میرے ہی سامنے بن بات کی بات پر ہنسی۔ تم نے گھر میں قدم رکھا اور ان کے دانت نکل آئے۔ یوں چاہے گھی کے گھڑے ڈھلک جائیں وہ بندی جگہ سے نہ ٹسکے گی، اور ادھر تم آئے اور ادھر آٹھ آٹھ مرتبہ آنگن میں چک پھیریاں ہونے لگیں۔ کہیں یہ کام کہیں وہ کام، اور پھر جو کام کریں گی تو تمھاری موجودگی میں بگڑ ہی جائے گا۔ پانی انڈیلیں گی تو اس طرح کہ آدھا گھڑا بہ گیا تو کٹورا بھرا۔ پھر اس پر قہقہہ۔ وہ تو دیکھ کے آپے ہی میں نہیں رہتیں۔ بات کریں گی تو چہرے کی حالت ہی اور ہو جائے گی۔ اللہ خاک میں ملا دے اس چہرے کو جس کے باعث دوسروں کی بربادی ہو۔ اچھے خاصے آدمی سڑی ہو جائیں کہ آدمی کا ڈر رہے نہ خدا کا۔

“یہ تم ہذیان کیا بک رہی ہو؟ اول تو جتنی باتیں تم نے کہی ہیں ان میں سے میں ایک بھی نہیں دیکھتا اور اگر بفرض محال ہوں بھی تو کسی کے ہنسنے میں میرا کیا قصور؟”

اے تمھاری بھی تو صورت بدل جاتی ہے ان کو دیکھ کر، تمھاری بھی تو آنکھیں انھیں کو ڈھونڈھا کرتی ہیں۔ پان مانگیں گے تو انھیں سے، بیٹھیں گے تو اس طرح سے کہ سامنا انھیں کا رہے۔ کیا یہ باتیں میں نہیں دیکھتی ہوں؟ اتنا سِن آیا، اتنے دن کا سابقہ تمھارا ہے۔ کیا اتنی بھی نگاہ نہیں پہچانتی ہوں؟

“اس بدگمانی کی دوا لقمان کے پاس بھی نہیں ہے، میں کیا کر سکتا ہوں؟ تم زبردستی کہتی ہو کہ ہئی ہے۔ مجھ سے قرآن اٹھوالو جو میرے دل میں کوئی برا خیال آیا ہو”۔

قرآن کتاب میں کون ہوں اٹھوانے والی اور میں کیوں اٹھوانے لگی؟ مجھ کو کیا غرض؟ تم مختار ہو اپنے فعل کے، مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ اگر تمھارا دل مجھ سے بھر ہی گیا تھا تو میرے سامنے تو یہ نہ کرتے، آج نہ سہی کبھی تو ہم بھی کسی گنتی شمار میں تھے۔ اسی وقت کا خیال کرکے آنکھوں کی مروت باقی رکھتے۔

“یہ تمھارا خیال کدھر ہے؟ ادھر دیکھو، مجھ کو دنیا میں تم سے زیادہ کس کا خیال ہوگا؟”

یہ ناحق کو کہتے ہو، ہوگا کیسے نہیں؟ میں پانچ لڑکوں کی ماں، وہ ابھی جوان جہاں، کوئی پانچ برس مجھ سے چھوٹی، پھر نہ کو‎‎ئی لڑکا بالا، میں تو الگنی پر ڈالنے کے قابل ہو جاؤں گی تب بھی وہ ایسی ہی پٹھیا بنی رہیں گی۔

“لاحول و لاقوۃ، تم نے یقین ہی کرلیا کہ مجھے ان سے لگاؤ ہے، تو اب یہ خیال تمھارے دل سے کیوں کر دور ہو؟”

دور اس طرح سے ہوگا کہ اس موئی سبز قدمی کو ہمارے گھر سے نکال دو۔

“اچھا تو صبح جب میں کام پرچلا جا‎ؤں، تم کہیں جانے وانے کا بہانہ کرکے کسی اچھے اسلوب سے رخصت کر دینا”۔

ہائے یہی تو میں کہتی ہوں کہ اس وقت بھی تمھیں اس کا خیال ہے کہ مروت نہ ٹوٹے، چاہے بی بی کا دم نکل جائے، مگر آشنا کے دل پر کیسے میل آ‎ئے؟

“پھر وہی! آخر ذر اغور کرو، میں کیسے انھیں کھڑے کھڑے نکال دوں؟ کوئی بات ہے؟”

اچھا تم کو اتنے مروت ان کی ہے تو مجھی کو جانے دو۔ اپنی آبرو اپنے ہاتھ ہے، کیا فائدہ کہ سوت کے ہاتھوں جوتیاں کھالوں تب نکلوں؟ پہلے ہی نہ چوکھٹ چوم کے چلی جاؤں؟ اللہ تم کو تمھارے بچوں کے سر پر برقرار رکھے۔ تم وہ خیرسے رہو، میں سمجھوں گی کہ میرے دشمن ویسے ہوگئے۔

ناظرین! آج کا لکچر زبردست ہوا، وہ تھوڑی دیر رویا کیں اور پھر آپ چپکی ہو کے سو گئیں۔ مگر مجھ سے کچھ عذر کرتے نہ بن پڑا، بہت دیر تک جاگتا رہا۔ چونکہ آپ لوگ میرے راز دار ہیں لہذا اگر یہ راز بھی آپ کو معلوم ہو جا‎ئے تو کوئی حرج نہیں۔ مجھ سے اور ان صاحب سے کسی طرح کا واسطہ نہ تھا اور نہ ہے۔ مگر لڑکوں کی ماں کے کہنے پر میں نے جو اپنے دل کو تولا تو معلوم ہوا کہ دراصل بلا ارادہ میرے دل میں ایک بات پیدا ہو گئی تھی اور گو کہ پان مانگنے اور سامنے بیٹھنے کا کوئی فعل میں نے عمداً نہیں کیا تھا مگر کوئی چیز دل کے اندر مجھ پر ضرور نفرین کر رہی تھی۔ چونکہ اس بیماری کی خبر مجھ کو ٹھیک وقت پر ہو گئی لہذا وہ مُسمَّاۃ بلطائف الحِیَل رخصت کر دی گئیں۔