اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں
by میر طاہر علی طاہر فرخ آبادی

اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں
غارت گروں نے لوٹ لیا ہے فقیر ہیں

خالق بچائے زہرہ جبینوں کی چاہ سے
سنتے ہیں دو فرشتے ابھی تک اسیر ہیں

چار آنکھیں ہم نے کی تو ہیں غصہ نہ کیجیے
سائل نہیں فقیر نہیں راہگیر ہیں

در پر تمہارے بیٹھے ہیں سر پر ہے آفتاب
ہم خاکسار مالک تاج و سریر ہیں

وہ بھی تو روئیں اے اثر گریہ ایک دن
جن کی نگاہ میں مرے آنسو حقیر ہیں

کہہ دیں گے صاف صاف وہ دیکھیں تو آئنہ
یہ مانگ ہے لکیر ہم اس پر فقیر ہیں

نظروں سے کیا گرائیں گے طاہرؔ عدو مجھے
فضل خدا سے دست خدا دست گیر ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse