اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی
by مبارک عظیم آبادی

اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی
یعنی کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی

کہتے ہیں وہ کہ جذبۂ دل اب فریب ہے
جب دل گیا تو دل کی کرامات بھی گئی

جو کچھ کیا وہ تو نے کیا اضطراب شوق
سو آفتیں بھی آئیں مری بات بھی گئی

دستار آپ کی جو ہوئی رہن میکدہ
توبہ ہماری قبلۂ حاجات بھی گئی

وعدے کی کون رات قیامت کا دن نہیں
آثار صبح کہتے ہیں یہ رات بھی گئی

مانا کہ دن سدھارے مبارکؔ شباب کے
رنگیں طبیعتوں سے ملاقات بھی گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse