اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے
by داغ دہلوی

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے
اللہ تیری شان کے قربان جائیے

بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے
سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے

کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے
ہر روز کیوں نہ جائیے مہمان جائیے

محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا
اتنوں میں کون چور ہے پہچان جائیے

ہیں تیوری میں بل تو نگاہیں پھری ہوئی
جاتے ہیں ایسے آنے سے اوسان جائیے

دو مشکلیں ہیں ایک جتانے میں شوق کے
پہلے تو جان جائیے پھر مان جائیے

انسان کو ہے خانۂ ہستی میں لطف کیا
مہمان آئیے تو پشیمان جائیے

گو وعدۂ وصال ہو جھوٹا مزہ تو ہے
کیوں کر نہ ایسے جھوٹ کے قربان جائیے

رہ جائے بعد وصل بھی چیٹک لگی ہوئی
کچھ رکھئے کچھ نکال کے ارمان جائیے

اچھی کہی کہ غیر کے گھر تک ذرا چلو
میں آپ کا نہیں ہوں نگہبان جائیے

آئے ہیں آپ غیر کے گھر سے کھڑے کھڑے
یہ اور کو جتایئے احسان، جائیے

دونوں سے امتحان وفا پر یہ کہہ دیا
منوائیے رقیب کو یا مان جائیے

کیا بدگمانیاں ہیں انہیں مجھ کو حکم ہے
گھر میں خدا کے بھی تو نہ مہمان جائیے

کیا فرض ہے کہ سب مری باتیں قبول ہیں
سن سن کے کچھ نہ مانئے کچھ مان جائیے

سودائیان زلف میں کچھ تو لٹک بھی ہو
جنت میں جائیے تو پریشان جائیے

دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے ترے قربان جائیے

دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے ترے قربان جائیے

جانے نہ دوں گا آپ کو بے فیصلہ ہوئے
دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے

یہ تو بجا کہ آپ کو دنیا سے کیا غرض
جاتی ہے جس کی جان اسے جان جائیے

غصے میں ہاتھ سے یہ نشانی نہ گر پڑے
دامن میں لے کے میرا گریبان جائیے

یہ مختصر جواب ملا عرض وصل پر
دل مانتا نہیں کہ تری مان جائیے

وہ آزمودہ کار تو ہے گر ولی نہیں
جو کچھ بتائیے داغؔ اسے مان جائیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse