اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
by نسیم دہلوی

اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
حال سے لوگوں کو خبر ہو گئی

وصل کی شب کیا کہوں کیوں کر کٹی
بات نہ کی تھی کہ سحر ہو گئی

دیکھیں گے اے ضبط یہ دعوے ترے
رات جدائی کی اگر ہو گئی

حضرت ناصح نے کہی بات جو
ہم اثر درد جگر ہو گئی

میں نہ ہوا غیر ہوئے مستفیض
تیری نظر تھی وہ جدھر ہو گئی

یاد کسی کی مجھے پھر ان دنوں
جوش زن دیدۂ تر ہو گئی

کس کی ہم آغوشی کا تھا عزم جو
زلف تری طوق کمر ہو گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse