اب وہ اگلا سا التفات نہیں
Appearance
اب وہ اگلا سا التفات نہیں
جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں
مجھ کو تم سے اعتماد وفا
تم کو مجھ سے پر التفات نہیں
رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ
زندگی موت ہے حیات نہیں
یوں ہی گزرے تو سہل ہے لیکن
فرصت غم کو بھی ثبات نہیں
کوئی دل سوز ہو تو کیجے بیاں
سرسری دل کی واردات نہیں
ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید
جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں
قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |