اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ پیار کی صورت تیری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ پیار کی صورت تیری
by صفی اورنگ آبادی

اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ پیار کی صورت تیری
نہ وہ حالت ہے ہماری نہ وہ حالت تیری

دیکھ لی دیکھ لی بس ہم نے طبیعت تیری
ہو نہ دشمن کے بھی دشمن کو محبت تیری

کیا غرض اس سے ہو دشمن پہ عنایت تیری
ہم تو جیتے ہیں فقط دیکھ کے صورت تیری

یہ بھی آ جاتی ہے جب دیکھ لی صورت تیری
سچ ہے الفت نہیں منہ دیکھے کی الفت تیری

ترک الفت ہی نہیں قطع تعلق بھی کیا
پھر بھی جاتی نہیں ظالم یہ محبت تیری

دخل ہوگا نہ کبھی جس میں گنہ گاروں کا
ہوگی اے واعظ کج فہم وہ جنت تیری

چاہنے والوں کا ہنگامہ کسی دن ہوگا
ایک دن تجھ کو رلائے گا یہ صورت تیری

یہ تڑپ یہ تری فریاد یہ حسرت اے دل
کاش آ جائے مری جان پہ آفت تیری

پہلے کچھ اور ہی تیور تھے یہ تیور تیرے
پہلے کچھ اور ہی صورت تھی یہ صورت تیری

دیکھنے والوں کی اک بھیڑ رہا کرتی تھی
اف رے وہ حسن ترا ہائے وہ صورت تیری

اس پہ حیرت ہے بڑی مجھ کو تعجب ہے بہت
غیر پھر غیر کے دل میں ہو محبت تیری

آدمی کی تجھے پہچان نہیں اے ظالم
ہم تو کرتے ہیں ترے منہ پہ شکایت تیری

تجھ کو دلبر جو بنایا تو بنایا ہم نے
ورنہ معلوم ہے دنیا کو حقیقت تیری

جان دے دی نہ اگر میں نے تو کچھ بھی نہ کیا
آپ کہتے ہی رہیں کیا ہے حقیقت تیری

چین آتا ہی نہ تھا تجھ کو حسینوں کے بغیر
اے صفیؔ کیا ہوئی اگلی وہ طبیعت تیری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse