اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
Appearance
اب مرنا ہے اپنے خوشی ہے جینے سے بے زاری ہے
عشق میں ایسے ہلکے ہوئے ہیں جان بدن کو بھاری ہے
شکوے کی چرچا ہوتی ہے چپکے ہی رہنا بہتر ہے
دل کو جلانا دل سوزی ہے یہ غم دنیا غم خواری ہے
کس کا وعدہ کون آتا ہے چین سے سوتا ہوگا وہ
رات بہت آئی ہے اے دل اب ناحق بیداری ہے
داؤ تھا اپنا جب وہ ہم سے چوپڑ سیکھنے آتے تھے
اب کچھ چال نہیں بن آتی جیت کے بازی ہاری ہے
لٹتے دیکھا غش میں دیکھا مرتے بھی دیکھا اس نے مجھے
اتنا نہ پوچھا کون ہے یہ اس شخص کو کیا بیماری ہے
ہجر ستم ہے کلفت و غم ہے کس سے کہیے حال اپنا
دن کو پڑے رہنا منہ ڈھانکے رات کو گریہ و زاری ہے
اٹھو کپڑے بدلو چلو کیا بیٹھے ہو بحرؔ اداس اداس
سیر کے دن ہیں پھول کھلے ہیں جوش پہ فصل بہاری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |