اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
by میر اثر

اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
سچ ہے کہ وقت جاتا رہا بات رہ گئی

تیری صفات سے نہ رہا کام کچھ مجھے
بس تیری صرف دوستی بالذات رہ گئی

کہنے لگا وہ حال مرا سن کے رات کو
سب قصے جا چکے یہ خرافات رہ گئی

دن انتظار کا تو کٹا جس طرح کٹا
لیکن کسو طرح نہ کٹی رات رہ گئی

بس نقد جاں ہی صرف اثرؔ نے کیا نثار
غم کی ترے سب اور مدارات رہ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse