اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
Appearance
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
سچ ہے کہ وقت جاتا رہا بات رہ گئی
تیری صفات سے نہ رہا کام کچھ مجھے
بس تیری صرف دوستی بالذات رہ گئی
کہنے لگا وہ حال مرا سن کے رات کو
سب قصے جا چکے یہ خرافات رہ گئی
دن انتظار کا تو کٹا جس طرح کٹا
لیکن کسو طرح نہ کٹی رات رہ گئی
بس نقد جاں ہی صرف اثرؔ نے کیا نثار
غم کی ترے سب اور مدارات رہ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |