اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
Appearance
اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی
ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو
کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی
بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یکسو
ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی
تلخ اس لب میگوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی
یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی
پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی
اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں
ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی
نش مردہ مرے منہ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |